تحریر: عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور‘کشمیر
8825090545
حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ”لَاصَلَاۃَ لِمَنْ لَم یَقْرَاءَ بِفَاتِحَۃ الکِتَاب“یعنی جس کسی نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی اُس کی نماز نہیں ہوئی]البخاری/756[۔اس حدیث میں دو کلمے ”لَا“ اور ”مَنْ“بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔بلکہ ان ہی دو کلموں میں پوری حدیث کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ ”لَا“ کا اطلاق نفی کے لئے ہوتا ہے اور ”لائے نفئی جنس“ کہلاتایعنی جس چیز کے آگے مستعمل ملے اُس کی چیز کی تمام قسموں،شکلوں اور صورتوں کی نفی کرتا ہے۔کلمہ شہادت میں جس وقت ”لَا الہ“کہا جاتا ہے تو تمام قسم کے معبودانِ باطل کی نفی ہوتی ہے ”الہ“معبود کو کہتے ہیں۔حدیث میں ”لَاصَلَاہَ“ کہہ کر نماز کی تمام قسموں کا احاطہ کیا گیا ہے فرض نماز ہو‘نوافل ہوں‘نمازِجمعہ ہو‘یہاں تک کہ نمازِ جنازہ کو بھی یہ حدیث شامل ہے۔اور احادیثِ صحیحیہ سے ثابت ہے کہ نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ کی تلاوت لازم ہے۔جو لوگ نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے خلاف ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
دوسرا اہم نکتہ یہ کہ ”لَاصَلَاۃَ“سے محدثین اور علما ء نے سورہ فاتحہ کا نماز کے رکن ہونے پر دلیل پکڑی ہے۔محمد بن عبدالوہابؒ نے ”وَقِرَاءَ ۃُ الْفَاتِحَۃِ رُکْنٌ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ“کہہ کر اسی حدیث کو بطورِ دلیل پیش کیا ہے۱؎۔امام شافعیؒ‘مالکؒ‘ابن حجر عسقلانیؒ اور ابن قدامہؒ وغیرہم سب اسی کے قائل ہیں ۲؎۔اور یاد رکھیئے کہ رکن کا کوئی متبادل نہیں ہوتا‘اگر نماز میں کوئی رکن ادا کرنے سے رہ جائے‘جان بھوج کر چھوڑا جا ئے یا جہلاً یعنی غلطی سے چھوٹ جائے تو نماز کا یا اُس مخصوص رکعت کا لوٹانا لازم ہے جس میں کوئی رکن ادا کرنے سے رہ جائے۔ رکن کی تعریف ہی ”جُزْ ءٌ مَاہِیَ“کے طور پر کی جاتی ہے‘یعنی کسی چیز کا لازمی حصہ۔اور نماز کے چودہ ارکان ہیں جن میں سورہ فاتحہ کا پڑنا بھی شامل ہے۔
کلمہ ”لَا“کے بعد اب حدیث کے اُس دوسرے کلمے پر آتاہوں جس کی موضوع کے ساتھ گہری مناسبت ہے اور جس کا ذکر میں ابتداء میں ضمنی طور پر کر چکا ہوں۔ میری مراد لفظ ”مَن“سے ہے]لَاصَلَاۃَ لِمَن[جو لوگ عربی نہیں جانتے اُن کو بتادوں کہ اس حدیث میں ”مَن“کا کلمہ عموم پر دلالت کرتا ہے جس کا معنیٰ جو کوئی یا جو شخص لیاجاتا ہے۔اس میں امام یا ماموم یعنی مقتدی کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ یہ ہر دو کو شامل ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف ؒ (متوفی2020)اس لفظ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”اس حدیث میں ’مَنْ‘ کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے‘منفرد ہو یا امام یا امام کے پیچھے مقتدی‘سری نماز ہو یا جہری‘فرض ہو یا نفل ہر نماز کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے]تفسیر احسن البیان[۔امام ہو یا مقتدی دونوں کو ہرہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنی ہے۔علامہ قسطلانیؒ رقمطراز ہیں ”ای فِی کُلَّ رَکْعَہٍ مُنْفَردًا اَوْ اِمَامًا اَو مَامُومًا سَوَاءٌ اَسِر الامامِ اوْ جَھرًا“یعنی سورہ فاتحہ کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے‘کوئی اکیلا نمازی ہو‘امام ہویا مقتدی‘امام آہستہ پڑھے یو اونچی آواز میں قراء ت کرے۔برِ صغیر کے مشہور محدث شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بھی یہی موقف رکھتے ہیں‘چنانچہ وہ لکھتے ہیں ”ایک حدِ اول میں وہ چیزیں داخل ہیں جن کو رسول اللہؐ نے رکنیت کے لفظ سے بیان فرمایا ہے جیسے آپؐ نے فرمایا ’لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘بغیرِ فاتحۃ الکتاب کے نماز نہیں ہوتی۳؎۔شاہ صاحب کا یہ قول اُن دیوبندی حضرات کے لئے چشم کشا ہے جو خود کو شاہ صاحب کے علمی وارث گردانتے ہیں ۴؎۔اور شاہ صاحب کا یہ فرمانا کہ وہ چیزیں جن کو رسول اللہ ؐ نے رکنیت کے لفظ سے بیان فرمایا ہے‘دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے ایک یہ کہ شاہ صاحبؒ بھی سورہ فاتحہ کو نماز کا رکن مانتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اگر سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے تو اس کا اداکرنا امام اور مقتدی دونوں پر لازم ہے۔علامہ کرمانیؒ فرماتے ہیں ”و فی الحدیث دلیلٍ علیٰ ان قراء ۃُ الفاتحہ علی الامام والمنفرد و الماموم فی الصلوٰۃ کُلَّھَا“یعنی یہ حدیث مراد ہے”لَاصَلَاۃَ لِمَنْ لَم یَقْرَاءَ بِفَاتِحَۃ الکِتَاب“اس مسلے پر واضح دلیل ہے کہ امام‘ اکیلے نمازی اور مقتدی ہر ایک کے لئے نمازوں میں فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے۵؎۔اسی طرح مشہور حنفی محدث جو صحیح البخاری کے شارح بھی ہیں امام محمود احمد عینیؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے عبداللہ ابن مبارکؒ‘ امام اوزاعیؒ مالکؒ‘شافعیؒ‘امام احمدؒ اسحاقؒ‘ابوثورؒ اور امام داؤ دؒ وغیرہم نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے پر دلیل پکڑی ہے۶؎۔
چند مزید احادیث
مزید گفتگو سے قبل یہاں پر چند احادیث کو یکجا کررہاہوں تاکہ آپ کو کمہ حقہ تشفی ہوسکے۔پہلی حدیث سنن ابی داؤد سے نقل کررہا ہوں جو جامع الترمذی میں بھی آئی ہے ”عَنْ عِبَادۃ بن الصامتؓ قال کُنا خلف رسول اللّہؐ فی صلوٰۃ الفجر فقراء رسول اللّہ ؐ فَثقلَتْ علیہِ القراء فلما فرغ قال لعلّکم تقرءُ وْنَ خلاف الامامکُم قُلْنَا نَعَمْ ھٰذا یا رسول اللّہؐ قال لا تفعلوا الّا بفاتحۃ الکتاب فاِنہٗ لاصلٰوۃ لمن لم یقراء بھا“]ابوداود/823[عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہؐ کے پیچھے فجر کی نماز میں تھے کہ رسول اللہؐ پر قرآن پڑھنا بوجھل ہوگیا۔جب آپ ؐنماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شائد تم لوگ امام کے پیچھے قرآن پڑھتے ہو‘تو ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہؐ ہم پڑھتے ہیں اس پر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا یاد رکھو سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا کرو کیوں کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اُس کی نماز نہیں ہوتی۔امام ترمذیؒ‘امام بغویؒ‘ امام بیھقیؒ‘امام خزیمہؒ‘اور امام دار قطنیؒ وغیرہم نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ابن حبان ؒ اور شیخ احمد شاکر اسے صحیح قرار دیتے ہیں‘بلکہ امام خطابیؒ کہتے ہیں ”اَسْنَادُہٗ جَیِّدٌ لَا طَعَنْ فِیہٖ“یعنی اس حدیث کی سند پختہ ہے اس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں ۷؎۔
امام خطابی اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں ”ھٰذَاالْحَدِیث نص صریح بان قراء ۃ الفاتحۃُ واجبۃ علی مَن صلٰی خلف الامام سواءٌ جھرا الامام بالقراء ۃ او خافت بھا و اَسْنَادُہٗ جَیِّدٌ لَا طَعَنْ فِیہٖ“ یعنی یہ حدیث اس امر پر نصِ صریح ہے کہ مقتدی پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے‘امام قراء ت بلند آواز سے کرے یا پھر آہستہ اور اس حدیث کی سند پختہ ہے اس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس ضمن میں دوسری روایت جو مشہور ہے وہ حضرت عائشہ ؓ کی ہے۔عائشہ ؓ کہتی ہیں ”قال رسول اللّٰہ ؐ مَن صَلٰی صلٰوۃ لم یقراء فیھا بفاتحۃ الکتاب فھِیَ خداجٌ غَیرَ تَمام“حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا جو کوئی کسی نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے وہ نماز ناقص ہے مکمل نہیں ہے۔اس حدیث میں ”خداج“کا لفظ غورطلب ہے‘مولانا عبدالحفیظ بلیاوی ندوی حفظہ اللہ ”مصباح اللغات“ میں لکھتے ہیں ”خداجًا وَ اَخْدَجتُ الدابۃ“کا معنی ہے اونٹنی کا ناتمام بچہ گرادینا‘یعنی جس بچہ کی تکمیل پوری ہونے سے قبل ہی بچہ گرجائے یا گرادیا جائے‘اُس پر ان الفاظ کا اطلاق ہوگا۔گویا وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے تکمیل کو نہیں پہنچتی۔امام خطابیؒ ”خداج“کا معنی یوں بیان کرتے ہیں ”مَعْنَاہٗ ناقصۃ نقصٌ فَسادٌ و بُطلان“اس کا معنی ناقص‘فاسد اور باطل ہے۔اب جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے فاسد ہے اور باطل ہے۔
ایک اور حدیث نقل کررہا ہوں جو صحیح المسلم میں آئی ہے ”عَن ابی ہریرۃ ؓ عَنِ النّبیؐ قال مَن صلٰی صلٰوۃ لم یقراء فیھا بِاُمُ القراٰن فھی خداجٌ ثلاثًا غَیرَ تمام“یعنی ابو ہریرہؓ رسول اللہؐ سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص نماز پڑھے اور اس میں ام القراٰن یعنی سورہ فاتحہ نہ پڑھے اُس کی نماز ناقص ہے‘ناقص ہے‘ناقص ہے۔اس پر ابو ہریرہؓ سے پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں اُس وقت کیا کریں۔ابو ہریرہؓ نے جواب دیا ”اقربھا فی نفسک“تب آہستہ سے پڑھا کرو۔اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام نویؒ لکھتے ہیں ”فَفِیْہِ وُجُوْبٌ قَرَاءَ ۃُالْفَاتِحَۃ وَ انھا متعینۃ لا یجزی غَیرَھااِلَا لِعَاجزٍ عَنْھَا“یعنی اس حدیث سے نماز میں سورہ فاتحہ کے پڑھنے کے وجوب پر دلیل ملتی ہے‘اس کا پڑھنا ہر ایک پر معین ہے سوائے عاجز کے اور کوئی دوسری آیت یا آیتیں اس کے قائمِ مقام نہیں ہوسکتیں۔اس حدیث میں بھی ”خداج“کا لفظ آیا ہے جس کی تشریح قبل ازیں گزر چکی ہے۔اس کے علاوہ حضرت انسؓ‘ابو قلابہؓ‘ عبداللہ بن سوادہ وغیرہم نے بھی اس حدیث کو مختلف مقامات پر روایت کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کی روایات متواتر درجے کی ہیں۔بقول ابو عبداللہ امام بخاریؒ”وَتَواتُرُالخَبَر عَنْ رسول اللہؐ لاصلٰوۃ الا بقراء ۃ اُم القراٰن“ یعنی سول اللہؐ سے تواتر کے ساتھ روایت نقل ہوئیں ہیں کہ سورہ فاتحہ کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔آپ کو بتادوں کہ متواتر روایت کا اطلاق اُس حدیث پر ہوتا ہے جس کو بہت سے ایسے لوگوں نے روایت کیا ہو جن کا عادتًا جھوٹ پر متفق ہونا ممکن نہ ہو۔اور متواتر حدیث کی شرط یہ ہے کہ اِس کو روایت کرنے والے افراد کی کثرت عہدِ نبویؐ سے لے کر سند کے تمام طبقوں میں پائی جاتی ہو۸؎۔اب آپ خود اندازہ کر لیجئے کہ متواتر روایات سے ثابت ہونے کے باوجود جو لوگ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے وہ کس درجہ کی غلطی پر ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ کا موقف
سورہ فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے ضمن میں نعمان بن ثابت ابو حنیفہ ؒ اور احناف کے موقف کا بساط بھر جائزہ لے رہا ہوں‘جس کی موضوع کے لحاظ سے کافی اہمیت ہے۔اور امتِ مسلمہ کی ایک کثیر تعداد اس اختلاف میں پڑی ہے کہ آیا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھی جائے گی یا نہیں۔اس ضمن میں سب سے پہلے قرآن کی ایک آیت اور امامِ ابو حنیفہؒ کا ایک قول آپ کے گوشِ گزار کرنا چاہتا ہوں۔سورہ نساء کی آیت ہے(یَاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیعُوااللّہَ وَاَطِیعُواالرَّسُولَ وَاُو لِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔فَاِنْ تنَاَزَعْتُم فِی شَی ءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُولِ اِنْ کُنْتُمْ تُوْمَنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الیَوْمِ الاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌوَّ اَحْسَنُ تَاْ وِیلًا)اے لوگوجوایمان لائے ہو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن کی جو تم میں حکم دینے والے ہیں‘پھر اگر کسی معاملے میں تم اختلاف پاؤ تو لوٹاؤ اُس معاملے کو اللہ کی طرف اور رسول کی طرف اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بہت بہتر ہے]النِّساء/59[۔اس آیت میں دلیل پکڑنے کا اصول بیان ہوا ہے وہ یہ کہ اللہ اور رسول ؐ کی اطاعت کے بعد اگر کسی مسلے میں اختلاف ہوجائے تو اُس مسلے کو اللہ (قرآن) اور رسولؐ(حدیث) کی طرف لوٹایا جائے گا وہ اس لئے کیوں کہ دلیل پکڑنے کے بنیادی طور پردو ہی ماخذ ہیں خصوصًا احکامِ شریعت میں‘اور وہ ہیں قرآن وسنت۔جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں ”اِنَّ خَیْرَالْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہ وَخَیْرَالْھَدِیُّ ھُدیٰ مُحَمّد“ اس کے بعد اگر کسی کی اطاعت ہوگی تو قرآن وسنت کے دائرے میں رہ کر ہی ہوگی اور قرآن وسنت کے بعد جب بھی کسی کے قول اور فعل میں اختلاف دکھائی دے تو فوراًقرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے”فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُولِ“سے یہی مراد ہے۔آیت کے بعد اب امامِ ابو حنیفہؒ کا قول بھی دیکھیئے فرماتے ہیں ”اِذَا اصح الحدیث فھومذہبی“یعنی جو بھی صحیح حدیث سے ثابت ہو وہی میرا مذہب ہے۹؎۔اب شخص پرستی‘مسلک پرستی‘حسد اور بغض و عناد کو چھوڑکر سورہ نساء کی آیت متذکرہ اور امام صاحبؒ کے اس قول کے پیشِ نظر ذرا انصاف کی بات کریں اور بتائیں کہ متواتر روایات سے ثابت ہونے کے باوجود امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنے کو غلط قرار دینا کیا درست ہے؟امام ابو حنیفہؒ نے اِذَا اصح الحدیث فھومذہبی کہہ کر اپنی انصاف پسندی‘حق پرستی‘بالغ نظری‘اخلاص اورتقویٰ شعاری کا برملا ثبوت پیش کیا ہے۔لیکن کیا کریں کہ کچھ لوگ اس کے باوجود نصیحت نہیں پکڑتے۔امامِ موصوفؒ کا یہ قول کئی اعتبارات سے چشم کشا ہے‘ ایک تو یہ کہ اس میں سنت کی طرف رغبت دلائی گئی ہے اور دوسرے یہ کہ اصح الحدیث کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ صحیح احادیث کو ہی ترجیح دینے کے قائل ہیں جو اُن افراد کے لئے ایک رہنمااصول ہے جو کہتے پھرتے ہیں کہ ہم صحیح اور ضعیف میں نہیں پڑتے ہم تو جو حدیث میں پاتے ہیں بس اُسی کوکافی جانتے ہیں۔
اب جہاں تک امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں امام ابو حنیفہؒ کا یہ موقف بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے قائل نہیں تھے۔لہذا احناف کے یہاں بھی یہی موقف پایا جاتا ہے۔اور اس ضمن میں وہ سورہ اعراف کی آیت کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔یہاں آپ کو بتادوں کہ ابو حنیفہ ؒ کے بغیر باقی ایماء ثلاثہ (شافعیؒ‘احمدؒ‘مالکؒ)کا موقف تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اس کے برعکس ہے جو امام ابو حنیفہ ؒ کا موقف ہے۔اور امامِ ابو حنیفہ ؒ کے شاگرداور مشہور راوی ِحدیث عبداللہ ابن مبارکؒ‘جن کا شمار عظیم رواۃ میں ہوتا ہے‘وہ بھی برعکس موقف رکھتے ہیں ۰۱؎۔اب کس کا کیا موقف ہے یہ اہم نہیں ہے‘بلکہ قرآن و سنت کی اتباع لازم ہے(اَطِیعُوااللّہَ وَاَطِیعُواالرَّسُول)۔امامِ ابو حنیفہؒ‘امامِ شافعی ؒ یا باقی ایماء جن کی اجتہادی کاوشوں کو قبولِ عام حاصل ہے‘جنہوں نے اپنی محنت شاکہ اور سعی سے امت کے شیرازہ کو بکھر نے سے بچایا۔ظاہر سی بات ہے اُن سب کا مقام قدرے بلند ہے‘لیکن یہ کہ اُن کو معصوم عن الخطا ماننا جہالت اور گمراہی ہے۔اُن سب سے جو اجتہادی اور فقہی لغزشیں ہویئں ہیں اُن کویہ سوچ کر چپانا کہ اُن کے مقام و مرتبہ میں کمی واقع نہ ہوجائے بالکل غلط ہے‘بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ اُن ایماء کے ساتھ بھی ظلم ہے۔امامِ ابو حنیفہؒ نے اپنی بہت سی اجتہادی لغزشوں سے رجوع کیا تھا جن کا ذکرمحدثین کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔یہاں تک کہ بہت سے حنفی المسلک محدثین اور علماء نے بھی ابو حنیفہؒ کے مختلف معاملات میں رجوع کو نقل کیا ہے۔ محمد عبدالحی حنفی لکھنویؒکا ایک رسالہ ”امام الکلام“کے نام سے ہے جس پرعلامہ شعرانیؒ نے حاشیہ لکھا ہے اور وہ لکھتے ہیں ”لابی حنیفہ و محمد قولان احدھماعدم وجوبھا علی الماموم بل ولا تسن وھذا قولھما القدیم و ادخلہ تصانیفہ القدیمہ وانتشرت النسخ الی الاطراف و ثانیھما استحسانھا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراھتھا عندالمخافتۃالحدیث المرفوع لا تفعلوا الابام القران و فی روایۃ لا تقروا بشیء اذا جھرت الابام القران و قال عطاء کانوا یرون علی الماموم القراء ۃ فی مایجھر فیہ الامام و فی مایسر فرجعاً من قولھما الاول الی الثّانی احتیاطاً“ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور اُن کے شاگرد امام محمدؒ کے اس ضمن میں دو قول ہیں ایک یہ کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا سنت نہیں ہے‘لیکن ان دونوں کا یہ قول قدیم ہے جس کو امام محمد ؒ نے اپنی قدیم کتابوں میں درج کیا ہے اور ان کتب ہائے مختلف کے نسخے اطراف میں پھیل گئے۔اور اُن کا دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کے لئے سری نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا مستحسن ہے اسی میں احتیاط ہے۔کیوں کہ ایک مرفوع حدیث میں آیا ہے کہ نہ پڑھو سوائے سورہ فاتحہ۔اورایک روایت ہے کہ جب میں بلند آواز میں پڑھوں تو تم سوائے فاتحہ کے اور کچھ نہ پڑھو‘اور عطا ءؒ کہتے ہیں کہ مقتدی کو دونوں سری اور جہری نمازوں میں فاتحہ پڑھنی چاہیئے۔بس دونوں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ نے اپنے پرانے قول سے دوسرے کی طرف رجوع کیا“ ۱۱؎۔عمدۃ الرعایہ میں تو محمد عبدالحی حنفیؒ نے بذاتِ خود اس کا اقرار کیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا قول قبل ازیں گزر چکا ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے اور شاہ صاحب ؒ حنفی المسلک ہیں۔عبداللہ ابن مبارک ؒ کے موقف کا ذکر بھی پیچھے گزرچکاہے وہ ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں سے ہیں۔
سورہ اعراف کی آیت
اب سورہ اعراف کی آیت پر آتا ہوں جس سے عام طور پر یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی۔ (وَاِذَا قُرِیءَ الْقُراٰنُ فَاسْتَمِعُوالَہٗ وَاَنْصِتُوالَعَلَّکُم تُرْحَمُون)اور جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحمت ہو]اعراف/204[۔اس آیت کی بنیاد پر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی ہے‘جب کہ اس آیت کا شانِ نزول کچھ اور بتاتا ہے۔تاہم اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس آیت سے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل ملتی ہے پھر بھی یہ حکم صرف جہری نمازوں کے لئے ثابت ہوگا نہ کہ سری نمازوں کے لئے۔حالانکہ اس آیت کا شانِ نزول مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ کفار اُس وقت شور مچایاکرتے تھے جب قرآن پڑھا جاتاتھا جیسا کہ سورہ حم السجدہ میں اُن کا قول یوں نقل ہوا ہے(لا تَسمَعُوا لِھٰذالقراٰنِ والغَوا فِیہِ)یہ قرآن نہ سنو اور شور کرو]اٰیہ/204[۔گویا اس آیت کا مفہوم مقید ہے نہ کہ عام‘اور اس حکم سے نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت مستثنٰی اور خارج ہے۔ جس کی تائد صحیح احادیث سے ہوتی ہیں ۲۱؎۔
حواشی
۱؎ شروط صلوٰۃ و ارکانہھا وواجباتھا
۲؎ کتاب الصلاۃ/علامہ ناصر الدین البانیؒ
۳؎ حجۃ اللہ البالغہ/ترجمہ مولانا خلیل احمد
۴؎ اسلام میں بدعت اور ضلالت کے محرکات/271
۵؎ عمدۃ القاری
۶؎ شرح صحیح بخاری از داؤد رازؒ جلداول /690
۷؎ ایضاً/692
۸؎ مصباح اللغات
۹؎ شرح بخاری حدیث نمبر 291کی شرح میں
۰۱؎ ایضًا
۱۱؎ ایضًا
۲۱؎ تفسیر احسن البیان