تحریر : ایمان کشمیری
یہ حقیقت بھی خواب ہے شاید
تِشنگی بھی سراب ہے شاید
سخت دھوپ اور سورج کی برستی تمازت میں دور کسی ریگستان کی ریت پر پانی کا گمان ہونا جیسے اس ریگستان میں کوئی چشمہ پھوٹ پڑا ہو ، لیکن اگر کوئی پیاسا ، پانی کا متلاشی اپنی رگیں تر کرنے کے ارادے سے اُس چشمے کی طرف سرپٹ دوڑے تو وہ چشمہ کسی ریت کے ڈھیر کی طرح پھسلتا چلا جائے اور انجام یہ ہو کہ ایک پیاسا شدتِ پیاس سے مرغِ بسمل بن جائے، اس اضطرابی حالت کو سراب کہتے ہیں ،، سراب کنایہ کے طور پر دھوکا اور فریب کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے، بالکل اسی طرح یہ دُنیا بھی عارضی اور سراب کی مانند ہے،،،
خیال ہے یا خواب ہے
یہ زندگی سراب ہے
ریت کا سمندر ہے
جو سامنے چناب ہے
کانٹوں سے لہو رنگ
یہ سُرخئ گلاب ہے
دُنیا کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ” میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں، یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہوئی ہے،، اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بِنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت ہو جاتی ہے ،، یہ اُمیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکے سے مزین ہے ،، نہ اس کی خوشی دائمی ہے اور نہ ہی اس کی مصیبت سے کوئی محفوظ رہنے والا ہے ،، یہ دھوکہ باز ، نقصان رساں ، بدل جانے والی ، فنا ہو جانے والی ،زوال پذیر اور ہلاک ہو جانے والی ہے ،، یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اور مٹا بھی دیتی ہے”۔
یہ دُنیا بالکل سانپ کی طرح ہے جو چھونے میں بہت نرم ہے مگر اِس کے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے۔ اہلِ عقل اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور بچے اسے ہاتھ میں اُٹھانے کےلیے جُھک جاتے ہیں۔ سانپ کی مختصر مثال سے دنیا کے ظاہر و باطن کی وضاحت بڑی خوبصورتی سے بیان کر دی گئی ہے یعنی یہ دُنیا دیکھنے میں تو بڑی دلفریب ہے ، دیکھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے مگر یہ ظاہراً رعنائیوں سے بھر پور دنیا باطن میں بڑی خطرناک ہے ، یہ مسافروں کو اپنی اصلی منزل سے گمراہ کر دیتی ہے ، دُکھوں میں مبتلا کر دیتی ہے ، انسانوں کو فریب دے کر ایسی کاری ضرب لگاتی ہے کہ وہ مایوسیوں کی گہری دلدل میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالی ہے :
(وما الحیاۃ الدنیا الا لعب ولهو) (۱۷)
”اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے ”
(ما هذہ الحیاۃ الدنیا الا لهوولعب) (۱۸)
”اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ”
(انماالحیاۃ الدنیالعب ولهووزینة وتفاخر بینکم) (۱۹)
”یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش باہمی فخرومباہات اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے ”
دنیا سے انسانی لگاؤ کے بارے میں خداوندِ عالم کی یہ ایک سنت ہے جس میں کبھی بھی خلل یا تغیر پیدا نہیں ہوسکتا ،، چنانچہ جو شخص دنیا کی طرف دوڑ لگائے گا اور اس کے لیے سعی کرے گا اور اس کی قربت اختیار کرے گا تو وہ اسے تھکا ڈالے گی اور اس کی طمع کی وجہ سے اس کی نگاہیں مسلسل اس کی طرف اٹھتی رہیں گی،، چنانچہ اسے جب بھی کوئی رزق نصیب ہوگا تو اسے اس سے آگے کی فکر لاحق ہو جائے گی اور وہ اس کے لیے کوشش شروع کر دے گا،،، مختصر یہ کہ وہ دنیا کا ساتھی ہے اور اس کے پیچھے دوڑ لگاتا رہے گا مگر اسے دنیا میں اس کا مقصد ملنے والا نہیں ہے،،،
البتہ جو دنیا کی تلاش اور طلب میں صبروحوصلہ سے کام لے کر میانہ روی اختیار کرے گا تو دنیا خود اس کے قدموں میں آکر اس کی اطاعت کرے گی اور وہ بآسانی اپنی آرزو تک پہنچ جائے گا۔
کبھی سوچا !!! کہ زندگی کی باٹم لائن کیا ہے ؟؟ اس سارے کھیل کا ڈراپ سین کیا ہے ؟؟ موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سنو ، زندگی بھر کا خلاصہ اسی آواز میں پوشیدہ ہے، آخری ہچکی کے ساتھ ہی سب کھیل ختم ہو جائے گا ، ساری زندگی کی تگ و دو ، جدوجہد ، منصوبہ بندیاں ، کامیابیاں اور شہرتیں یہیں کی یہیں دھری رہ جائیں گی،،، ذرا سوچو !!! اس وقت کیا ہو گا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد تک پہنچ جائیں گے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا ، اِس وقت ہر نفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب مالکِ برحق کی طرف پلٹا دیا جائے گا اور کسی پر کوئی افترا پردازی کام آنے والی نہ ہو گی،،،
شیخ سعدی نے کہا : "عاقبت کی راہ میں یہ دنیا ایک پُل کی مانند ہے اور کوئی عقل مند پُل پر اپنا گھر نہیں بناتا”۔
حضرت عثمانؓ جب کسی قبر پر جاتے تو اتنا روتے کہ چہرہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا، کسی نے کہا آپ جنت و دوزخ کے بیان پر اتنا نہیں روتے جتنا قبروں پر روتے ہیں،،
فرمایا میں نے حضورؐ سے سنا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے، اگر مُردہ اس سے بچ گیا تو دوسری منزلیں بھی اس پر آسان ہو جاتی ہیں لیکن اگر اسی منزل سے نجات نہ پائی تو دوسری منزلیں بھی کڑی اور مشکل ہو جاتی ہیں۔
آقاؐ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو بہت زور زور سے قہقہے لگا کر ہنس رہے تھے۔ فرمایا کہ ’’ان لوگوں میں لذتوں کو تلخ کر دینے والی کا ذکر بھی شامل کردو‘‘ پوچھا ’’حضورؐ ! وہ کیا ہے؟‘‘ فرمایا ’’وہ موت ہے‘‘۔
بلا شبہ کتابِ زیست کا مرکزی خیال زندگی کی بے ثباتی اور غیر یقینی سے عبارت ہے،،، انسان سمیت اس کائنات کی ہر شے راہِ عدم کی مسافر ہے ،،، گردشِ ماہ و سال ہو یا داستانِ عروج و زوال ، سب فنا پر گواہ ہیں ،،،روزِ ازل سے آج تک نہ جانے کتنے ظالم ، سفاک ، جابر اور طاقتور آئے اور پھر چند ساعتوں کا عَہدِ سلطانی گزار کر ہمیشہ کےلیے منوں مٹی تلے جا سوئے۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے اِنہیں اجزا کا پریشان ہونا
لہٰذا !!! خود کو جہالت سے نکال کر حق اور سچ کی طرف لوٹ آئیے ، یہ دنیا ایک فریب ہے، اس میں خود کو تباہ نہ کیجیے،،، سورۃ لقمان میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :
” پھر دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے”
ربِ تعالی نے واضح بتا دیا ہے کہ دنیا کی عارضی زندگی ہمیں دھوکے میں ڈال سکتی ہے چنانچہ اس دھوکے سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم صراطِ مستقیم پر چلیں،،، اپنی جھوٹی شان و شوکت کی خاطر ہمیشہ کی زندگی یعنی عقبی کو تباہ نہ کریں ، یہاں رب اور رب کے بندوں کے ساتھ تمام معاملات ایسے صاف ، سیدھے اور سچے رکھیں کہ وہاں کسی عتاب کا سامنا نہ کرنا پڑے،،، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پکے اور سچے مسلمان بنا دے ، اس فریبی دنیا کی لذتوں سے بیزار کر کے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کا حقدار بنا دے ۔ آمین یا رب العالمین
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ(۵)
"اے لوگو!!بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو ہرگز دنیا کی زندگی تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا فریبی تمہیں اللہ کے بارے میں فریب نہ دے”