از قلم شگفتہ حسنن
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
عورت صنف نازک ہے جس کی حفاظت بے حد ضروری ہے ، چنانچہ اگر یہ پردے میں رہے تو اس کی حفاظت آسان ہوجاتی ہے۔پردہ اور پردے کی غرض و غایت ظاہر عمل کی پہچان ہے ، یعنی جو چیز پردے میں رہ کر محفوظ ہے گویا اس کو کسی چیز کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔یہی بات میں ان دانشوروں ، شاعروں اور ادیبوں سے کہنا چاہتی ہوں جو سماجی اعتبار سے سرگرم اور فعال واقع ہوئے ہیں اور سماج میں جن کا اثر ورسوخ ہے ۔ اگر وہ پردے کی وکالت کریں گے تو ظاہر ہے کہ اس کا اثر سماج پر ہوگا ۔
بقول علامہ اقبال
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مد نظر
وضع مشرق کو جانتے گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
ہم نے اسلامی طرز حیات سے زندگی گزارنے کا راستہ کب کا ترک کر دیا ۔ اپنی جسمانی نمائش کو سر راہ لانے کے لئے ہم نے پردے کی عظمت کو بھی تار تار کیا۔ ہماری چند ایک خواتین کی بے پردگی کو دیکھ کر غیر مسلم خوش ہے۔ نیز یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ہماری بے پردہ ماؤں اور بہنوں کو دیکھ کر فقرے کستے رہتے ہیں۔
آخر یہ کیسا رجحان ہے ۔ نئے زمانے کی نئی منطق نے ہماری سماجی زندگی کو زہر آلودگی سے دو چار کیا ہے ۔ پھر بھی ہم خاموش تماشائی بن کر بت بنے بیٹھے ہیں۔ پردہ ایک تھا اس کا رنگ انوکھا تھا ۔ اب اس کی نوعیت بدل چکی ہے ، ان گنت برقعوں نے نئے نئے ڈیزائن کا روپ دھارلیا ہے جس کا پہننا اور نہ پہننا برابر ہوکر رہ گیا ہے۔
میں ان ماؤں بہنوں سے کہنا چاہتی ہوں جو زمانے کی روش کو اپنا کر اپنے وجود سے اور اپنی پہچان سے بے وفائی کررہی ہیں۔ رونا تو اس بات کا ہے کہ گھر ان کے لیے قید خانہ ، پارک ، سنیماہال اور بازار ان کیلئے سکون وانبساط کی جگہ بن گئی ہیں ۔ نگاہیں نیچی رکھنا تو دور کی بات ، نگاہیں لڑانا ان کا شعار بنتا جارہا ہے ۔ سروں سے چادر اُتار کر اب وہ بازاروں میں ننگے سر گھومتی رہتی ہیں۔ بے شک عورت کو باہر نکلنے کی اجازت ہے لیکن اس طرح کہ وہ اغیار کی نظروں میں محفوظ رہیں اور شرافت ، نفاست اور تقدس کو ہاتھ سے نکل نہ دیں۔ فطرت کا تقاضا ہی ایسا ہے کہ والدین کا اثر اولاد کی نفسیات پر پڑتا ہے ، یعنی اولاد کے شب وروز کا خیال رکھنا ، اچھے اور بُرے کی تمیز سکھانا اور زندگی کا لائحہ عمل مرتب کرنا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے ۔اب رہا ماحول کی نزاکت ، حالات کی کیفیت جو زمانے کی رفتار کے مطابق بدلتی رہتی ہے لیکن ہمیں اس وقت یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔
دراصل ہم پر وہ سارے آداب لازم ہوتے ہیں جو اسلامی قوانین کہلاتے ہیں ۔درحقیقت ہم نے اپنی پہچان کی نوعیت بھی بدل ڈالی ہے۔ دین سے غفلت اور دنیاوی خوشحالی ہم پر کچھ زیادہ ہی حاوی ہیں۔ غرض کہ معاشرے کا مزاج بدلتا جارہا ہے۔نفسانفسی کے عالم میں اخلاقی گراوٹ کا پہلو نمایاں ہے۔ خاص کر ہماری ماؤں اور بہنوں نے اسے اپنا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہماری پھول جیسی بچیاں دنیا کے بازار میں پسی جارہی ہیں اور ہم خسارے کی طرف جارہے ہیں ۔عیاری ، مکاری اور خود غرضی نے ہمیں لاپرواہ کردیا ہے۔ ہماری عزت مآب مائیں گھر سے نکل کر دنیا کے بازاروں میں کھوجاتی ہیں اور اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہی ہے .
اقوام قدیمہ میں سے جس قوم کی تہذیب سب سے زیادہ شاندار نظر آتی ہے وہ اہل یونان ہیں ، اس قوم کے ابتدائی دور میں اخلاقی نظریہ ، قانونی حقوق اور معاشرتی برتاؤ یعنی ہر اعتبار سے عورت کی حیثیت بہت گری ہوئی تھی ، یونانی خرافات (Mythology) میں ایک خیالی عورت پانڈورا (Pandora) کو اسی طرح تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیاگیا تھا ، جس طرح یہودی خرافات میں حضرت حواء علیہا السلام کو قرار دیاگیا ، ان کی نظر میں عورت ایک ادنیٰ درجہ کی مخلوق تھی ، معاشرت کے ہر پہلو میں اسکا مرتبہ گرا ہوا رکھا گیا اور عزت کا مقام مرد کے لئے مخصوص تھا۔
معاشرے کی گرتی ہوئی اخلاقی حالت اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ عورت نے اپنے مربی کے پیغام کو بھلاکر خود کو ایک ایساسجاوٹی سامان (show piece) بنا لیا ہے جو نگاہ کو تو خیرہ کرسکتا ہے لیکن گھر کی زینت نہیں بنایا جاسکتا ۔ کیونکہ عفت و حیا ایک ایسا زیور ہے جو نہ صرف عورت کو حسن عطا کرتا ہے بلکہ اس کے وقار میں اضافہ بھی کرتا ہے ۔
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جارہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں۔۔
علامہ اقبال