مضمون نگار: سہیل محمد گنائی
تیلہ گام، پٹن
بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
حال ہی میں عرفان یتو صاحب نے رائزنگ کشمیر میں ایک مضمون Village poets of Tilgam تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے کئی اہم اشخاص کا ذکر کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سر زمین تیلہ گام شعروادب کے لحاظ سے کافی ذرخیز ہے۔ تیلہ گام شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ تحصیل پٹن میں واقع ہے جو تقریبا آٹھ سو (800) چولہوں اور 15 محلوں پر مشتمل ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تیلہ گام ایک بڑا گاؤں ہے اور یہاں کی آبادی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔
لیکن اس گاؤں کے بیچ ایک سڑک گزرتی ہے جس سے اس گاؤں کے دو (٢) حصّے ہو جاتے ہیں۔جیسے مان لو (L O C) لائن آف کنٹرول جو ہندوستان اور پاکستان کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔یہی کچھ حال اس سڑک کا بھی ہے۔جس نے تعلیم ، معاش ، سماج اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر تیلہ گام کا بٹوارہ کیا ہے۔سڑک کے اس پار تعلیم یافتہ، رئیس اور مہذب لوگ رہتے ہیں وہیں سڑک کے اس پار اَن پڑھ، جاہل، غریب مزدور اور تیسرے درجے کی زبان استعمال کرنے والے لوگ رہتے ہیں۔ اس سڑک نے دو اور محلوں کو گاؤں سے الگ کر دیا ہے۔
ان کے حالات و کوائف کا خدا ہی حافظ ہے۔ بے روزگاری نے یہاں جیسے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔یہی وجہ سے یہاں چوروں، ڈاکووں، چرسیوان اور شرابیوان کی اکثریت ہے۔سگریٹ تو یہاں ایک عام چیزسمجھی جاتی ہے۔ان محلوں میں آپ کسی سے بھی بات کریں تو پہلے سگریٹ سلگانے کو کہتا ہے۔ سڑکوں پر چلیں تو ایسی زبان سننے کو ملتی ہے کہ انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑے تو روز کا معمول ہے۔ یہاں کے فیصلوں کے لیے بھی L O C کے اس پار کے لوگوں کو آنا پڑتا ہے کیوں کہ یہاں تو ہم بڑوں کو بڑا اور چھوٹوں کو چھوٹا سمجھتے ہی کہاں ہیں۔؟ گالی کے بغیر تو کوئی کسی سے بات تک نہیں کرتا ہے۔یہ وہ واحد گاؤں ہوگا جہاں آپ باپ بیٹے کو ایک ساتھ پتے کھیلتے دیکھ سکتے ہیں۔
ان دونوں محلوں کی ٪99 فصیدی آبادی مزدوری کر رہی ہے اور شاید ہی کبھی اسکول یا مدرسہ گئے ہوں۔ اس لیے یہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے مزدوری پر بھیجنا پسند کرتے ہیں۔جہاں دنیا بھر میں "بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” نعرہ گونجتا ہے وہیں ان محلوں میں بیٹیوں کو تو بچایا جاتا ہے لیکن انہیں اصل زندگی سے محروم رکھا جاتا ہے۔شاید ہی میں نے کبھی سنا ہو گا کہ یہاں کسی بچی نے کالج میں داخلہ لیا ہے کیوں کہ یہاں بچیاں زیادہ سے زیادہ آٹھویں یا دسویں جماعت تک پڑھی ہیں۔
اس کے بعد ایک تو خرچہ بڑھ جاتا ہے دوسرا اپنے گاؤں سے باہر جانے کے لیے والدین اپنی بچیوں کو اجازت نہیں دیتے ہیں۔ جہاں دنیا بھر کی لڑکیوں نے چاند اور مارس پر قدم جمانے کی تیاری کر رہی ہیں وہیں ہمارے یہاں لڑکیوں کو گھروں سے باہر جانے تک کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے اور شاید اسی وجہ سے ہماری نسلیں اَن پڑھ اور جاہل ہی رہ جائیں گی۔ اگر ہم لڑکوں کی بات کریں گے؛ وہ بھی زیادہ سے زیادہ ہائرسیکنڈری تک ہی پڑھائی کے لیے جاپاتے ہیں اگر چہ ان کو پڑھنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے لیکن ان کو مالی مشکلات کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑتی ہے اور کسی کارخانے یا مزدوری کرنے پر مجبور ہوکر جانا پڑتا ہے۔ اس پورے گاؤں کی آبادی کے مطابق ان محلوں میں تقریبا ٪30 فیصد آبادی رہتی ہے جس میں صرف ایک سرکاری استاد ہے۔اگر ہم دینی تعلیم کی بات کریں گے تو یہاں پر کوئی بھی دارالعلوم یا درسگاہ موجود نہیں ہے جہاں بچوں کو قرآن کریم اور احادیث کا درس دیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اس پورے گاؤں کو آبادی کے تناظر سے دیکھیں تو اتنے بڑے گاؤں میں جہاں 800 چولے رہتے ہیں وہاں محض ایک(1) پی ایچ۔ ڈی سکالر (PhD) ہے، تین یا چار لیکچرر موجود ہیں۔
کیا یہ اتنی بڑی آبادی کے لیے شرم کی بات نہیں ہے؟ علم حاصل کرنے کا حکم پر وردگار سے ملا ہے۔ جہاں دنیا نے اپنی رفتار بہت تیز کردی ہے وہیں ہم ابھی اسی ڈگر پر کھڑے ہے جہاں اس سے قبل تیس سال تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی تھی یہاں تک کہ بدر کے قیدیوں کو تعلیم حاصل کرنا معاوضے پر رہا کرنا علم کی گراں قدری کا اعلی ثبوت ہے۔ یہاں ہر روز سورج طلوع ہوتا ہے مگر اصل میں ہم تاریکی میں ہی اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم زندہ تو ہیں لیکن زندگی کے اصل مقاصد سے ناواقف ہیں۔ ان محلوں کی خاصیت یہ ہے کہ تیلہ گام میں سب سے پہلے یہیں پر جمعہ کی نماز قائم کی گئی ہے۔اور ایک بہت بڑا جامع بھی انہیں محلوں میں زیرِ تعمیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسی جامع مسجد پورے تحصیل میں نہیں ہے لیکن میں نے اپنے 26 سالوں میں کبھی کسی مولوی صاحب کو مذکورہ بالا مسائل پر بات کرتے ہوئے نہیں سنا ہے۔
اگر آج تیلگام کے کسی بھی فرد سے یہاں کے حالات کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ سردست سڑکوں کی خستہ حالی کا ذکر کرے گا۔ مگر میری دانست میں اتنی خستہ حال ہماری سڑکیں نہیں ہیں جتنے خستہ حال ہمارے یہاں کے سماجی حالات ہیں۔جس کی طرف دھیان دینا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ محلے ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے؟ان کے حالات روز بہ روز خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں؟کیا تعلیم یافتہ طبقے پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے؟تعلیم یافتہ طبقہ کو چاہیے کہ ایسے اقدام اٹھائیں جن سے ان محلوں کے لوگوں کو سدھارا جاسکے۔
شایدتعلیم یافتہ طبقہ یہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ان کے بچے اچھے اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ لہذا انھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن شاید ان کی توجہ اس بات کی طرف نہیں جا رہی ہے کہ کل کو ان کے بچوں کو انہیں بچوں کے ساتھ کھیلنا کودنا ہوگا۔ کیا ان بچوں پر مذکورہ حالات اپنے منفی اثرات نہیں ڈالیں گے۔؟ ہمارا معاشرہ روز بہ روز خرابی کے دلدل میں پھنسا ہی جارہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ادیبوں شاعروں صحافیوں اور اساتذہ کو چاہیے کہ ان مسائل پر اپنی خاموشی توڑ دیں اور سماج کو سدھارنے کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے۔
یہ حال محض دو محلوں کا ہے لیکن نہ جانے ایسے کتنے محلے ہوں گے جہاں ان دو محلوں سے بھی ابتر حالات ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو جگائیں اور ضروری اقدام اٹھائیں گے۔ہمارے لیے اب کوئی ایسا مسیحا نہیں آئے گا جو ہمیں مصیبت کے اس منجدھار سے باہر نکالے گا۔