ہ درد تو اب سب میں بٹ رہا ہے
کوئی لکھ رہا ہے تو کوئی پڑھ رہا ہے
غمِ دُنیا ہے یہ، سب کو گھیر رکھا ہے
کوئی سہہ رہا ہے تو کوئی مر رہا ہے
کر کے خاتمہ خود کا تو کہاں بچ رہا ہے
تیرے فعلِ حرام کا وہاں حساب چل رہا ہے
سکون چھن گیا تھا ،یہ انكا پیغام رہا ہے
مگر ‘اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ’ خدا کہہ رہا ہے
رنجش، بندش اور سازش جو بھی کر رہا ہے
إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ بھی تو خُدا ہی کہہ رہا ہے
عابد بن فیاض