شفق ہے نُور سے پُرنم مگر پھر بھی لہو میں ضم
پھریں گے چارسو میں ہم کہ بربادی پہ تیرے ہم
یہ دھرتی میرے جیون کی
ہمیشہ سے تھی شیون کی
بنی وادی بھنگیرن کی
نہ تیری ہے نہ اسجن کی
سُکوں کی منزلوں سے دور اُمیدِ وصلِ سے معذور
نہیں نام و نشاں جمہور نہ پائے کوفتن میں چور
ہمیں زندہ ہی گاڑا ہے
لباسِ زیب پھاڑا ہے
نہ عورت کو ہی جھاڑا ہے
کہ مردوں کا ہی باڑا ہے
زمیں میں لاشوں کے انبار وطن میرا ہوا مسمار
ہوئے حاکم سبھی خونخوار نہ کوئی ہمسرِ افسار
لگائیں گے بلند نعرہ
خزاں جس سے ہو درپردہ
بہاروں کا ہو افشردہ
تو حاکم میں ترا بندہ
دلیلِ راہ میں ہوں ضم وطن کی خاطرِ ہم دم
قدم کیا؟ لڑکھڑاتے فم چراغِ صبح گاہی لم
اُفق کے پار جائیں گے
سویرا کر کے آئیں گے
سو جشنِ رم منائیں گے
غبارِ دل اُڑائیں گے
دِکھا دے اب ہمیں تُو راہ نہیں ماضی ہماری کاہ
عوام الناس اب کی ساہ دل و گردہ نے کی ہے چاہ
دعا یاورؔ کی سن لے اب
ہمیں توفیقِ حق دے اب
بہاروں کی رضا سے اب
خوشی قرباں وطن پے اب
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٗٹ ہندوارہ