عبد الرحمن عبد العال عبد الوہاب
جامعۃ ازہر، قاہرۃ مصر
[email protected]
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں یحیی نام کا لڑکا تھا،جب وہ چھوٹا تھا تو اپنے باپ کے مرنے کے بعد ماں کے ساتھ رہتا تھا، اور اس کی ماں کے زیر سائے میں پرورش پائی، جس نے اس کو ہمیشہ سچ بولنا سکھایا، اس لئے وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ ایک دن اس نے علم حاصل کرنے کے لئے قریبی ملکوں کا سفرکرنے کا ارادہ کیا۔ اور سفر کرنے سے پہلے اپنی ماں کے پاس الوداع کرنے کے لئے گیا تو اس کی ماں نے اس سے کہاکہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولوگے، تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ ہمیشہ سچ بولے گا اور کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔یخیی اللہ پر بروسہ رکھتے ہوئے تھوڑا کھانا اور کچھ کتابیں ساتھ لے کر سفر کے لئے نکل پڑا۔ اس کی ماں نے اس کو چالیس دینار دئے تو اس نے ان دیناروں کو اپنے کپڑوں کے نیچے چھپالیا تاکہ کوئی چور اس کو نا دیکھ سکے۔ یحیی نے ایک کارواں کے ساتھ اس شہر کا سفر شروع کیا جہاں سے وہ علم حاصل کرنا چاہتا تھا اور سفر کے دوران اس کے سامنے چور آگئے، چوروں نے قافلے کی ہر چیز کو لوٹ لیا یہاں تک کہ انہوں نے کچھ بھی نہ چھوڑا، جب چوروں نے ہر چیز لوٹ لی تو سب سے بڑے چور نے یحیی کو کھڑے دیکھا تو بڑا چور یحیی کا مزاق اڑانے لگا اور کہا”تم دیکھو اس لڑکے اس کے کپڑے کتنے پرانے“۔ پھر بڑے چورنے یحیی کو بلایا اور کہا ”او لڑکے یہاں آ“، یحیی نے اس کی طرف ڈرتے ہوئے دیکھا پھر بڑے چو ر نے اس کو پھر سے بلایا اور اس سے کہا”میں نے تجھ سے کہا یہاں آ، آ ورنہ تجھے قتل کرونگا“ تو یحیی بڑے چور کے پاس گیا اور بولا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہے؟ بڑے چور نے ہنستے ہوئے پوچھا ”کیا تیرے پاس کوئی مال ہے“؟ تو یحیی نے جواب دیا ہاں!میرے پاس چالیس دینار ہیں اور میں نے انہیں اپنے کپڑوں کے نیچھے چھپایا ہوا ہے۔ بڑے چو رنے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں گناہ جھلک رہا تھا پھر وہ خاموش ہوگیا اور یحیی سے کہا میں تیری تلاشی لیتا ہوں ہم دیکھنگے کہ اگر تو جھوٹا ہوا تو میں تجھے قتل کردوں گا پھر سب سے بڑے چور نے اپنی باقی چور ساتھیوں کو بلایا او ر کہا ”تم اس لڑکے کی تلا شی لو“ تو انہوں نے یحیی کی فورا تلاشی لینا شروع کیا تو تلاشی کے دوران انہیں یحیی کے پاس سے دینار مل گئے تو انہوں نے دینار بڑے چور کو تھما دئے پھر جب اس نے ان دیناروں کو گنا تو واقعی وہ چالیس دینا تھے۔ بڑے چور نے تعجب سے کہا تو نے مجھے دیناروں کے بارے میں کیوں بتایا؟ آخر تجھے سچ بولنے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا تو نہیں جانتا تھا کہ میں تیرے دیناروں کو چرالوں گا؟ تو یحیی نے جواب دیا کہ میں اپنی ماں سے ہمیشہ سچ بولنے کا وعدہ کیا تھا اس لئے میں سچ بولتا ہوں، اس لئے میں اپنی ماں سے کئے ہوئے وعدے کی وعدہ خلافی کبھی نہیں کرونگا۔ تو سب سے بڑے چور نے اس کی طرف دیکھا او ر روتے ہوئے کہا تم اپنے ماں سے کئے ہوئے وعدے کی وعدہ خلافی کرنے سے ڈرتے ہو اور میں نے اپے رب سے کئے ہوئے وعدے کی وعدہ خلافی کی،اور میں لوگوں میں خوف پیدا کرتا ہوں اور ان کی پیسے لوٹتا ہوں۔ آج میں تم سب سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اسی وقت سے اللہ سے توبہ کرتا ہوں اور بڑے چور نے لوٹے ہوئے پیسوں اور چیزوں کو واپس کرنے کا حکم دیا جس سے لوگ خوش ہوگئے تو باقی چو ر اس کے پاس گئے اور بولے آپ چوری میں ہمارے بڑے تھے اور آج آپ ہی توبہ میں ہمارے بڑے ہونگے ہم سب نے اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔
اس طرح سچائی کی برکت سے لڑکے اور قافلے کو چوروں سے نجات مل گئی اور سب نے توبہ کی۔