تحریر:- دانش احمد پرے
گوئیگام کنزر بارہمولہ
رابطہ:- 8803250765
شور ہے کہ ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود،
ہم یہ کہتے ہے کہ تھے بھی کہی مسلم موجود۔
وضع میں تم ہو نصارہ، تو تمدن میں ہنود،
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود۔
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو،
تم سبھی کچھ ہو تو بتاؤ کیا مسلمان بھی ہو؟
( علامہ محمد اقبال )
اگر چہ کائنات کے رہبر اور رہنما جناب نبی رحمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے ضمن میں فرمایا ہے کہ:- "سب سے بہترین اور بابرکت نکاح وہ ہے جس میں اخراجات کم ہو” (مشكاة المصابيح کتاب النکاح 3097)، مگر المیہ اور امر واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دیکھا دکھائی کے عالم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھکرا اور انکار کرکے نکاح جیسی بابرکت و سنت عمل کو (معاشرے میں رسومات، رواجات اور بدعات کو تخلیق کر کے) انجام دینا کٹھن اور مشکل سے مشکل ترین بنا دیا۔ اگر ہم اپنے معاشرے کی طرف رخ کرے تو چاہے خوشی و مسرت کے مواقع ہو یا دکھ و کرب کے، دونوں ہی صورت میں معاشرے میں لوگوں کی ایسی اکثریت موجود ہیں جو دکھ اور سکھ دونوں مواقعوں پر جدید اقسام کے رسومات، رواجات اور بدعات کو تخلیق کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
بہرحال ہمارے سماج یعنی وادی کشمیر میں شادیوں کا موسم جاری و ساری ہے، اور دور حاضر میں وادی کے مختلف اطراف و اطناف میں جس عنوان سے شادیاں انجام دی جارہی ہیں، وہ سب عیاں اور آنکھوں کے سامنے ہیں۔ معاشرے کے صاحب ثروت و اکثر مالدار اور دولت مند لوگ شادیوں کی بات شروع کرنے سے لے کر شادیوں کو اختتام و پایہ تکمیل پہنچانے تک اس قدر فضول خرچی، رسومات اور بدعات کو فروغ دے رہے ہیں کہ معاشرے میں رہنے والے کمزور، غرباء اور متواسط طبقہ جات کے لوگ اپنے بچوں کی شادیاں انجام دینے میں قاصر و ناکام رہتے ہیں۔ اور اگر ان طبقہ جات میں کوئی شخص شادی انجام دینا بھی چاہے تو اس کو مجبوراً لوگوں کی باتوں اور طعنوں سے خوفزدہ ہوکر معاشرے کے مالدار و دولت مند لوگوں کی تشکیل شدہ رسم و رواجات کو مدنظر رکھ کر کے لاکھوں روپے مالیت کا قرضہ لینا پڑتا ہے، اور وہ مجبوری کی عالم میں لاکھو روپے کا مقروض ہوجاتا ہے۔ جس کے آخر میں یہ نتائج سامنے نکل کے آرہے ہیں کہ اس شخص کی پوری زندگی قرضہ چکانے میں نکل جاتی ہے۔ مگر کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور و فکر کیا ہے کہ لاکھوں روپے کا قرضہ اٹھانے والے شخص کو لاکھوں روپے کا مقروض کس نے بنا دیا؟کس نے اس کو لاکھوں روپے کے قرضے میں ڈبو دیا؟
اگر ان سوالات کی طرف توجہ مرکوز کرے اور اس پر غور و فکر کرے تو دل و دماغ اس بات کی تصدیق کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ تقریباً ہم سب نے اجتماعی و انفرادی سطح پر اس شخص کو لاکھوں روپے مالیت کے قرضے کا مقروض بنا دیا، اور اسے قرضے میں ڑبودیا۔ وہ اس لئے کیونکہ جب بھی ہمارے معاشرے میں آج تک کسی نے نکاح کو سادگی اور اسلامی طریقے سے انجام دینے کی سوچی تو کہی نہ کہی ہم سب نے اس کو براہ راست یا بالواسطہ الگ الگ بات سنائے ہوگی اور طعنے بہی دیے ہونگے۔ اس ضمن میں سماج کے اکثر مالدار و دولت مند لوگوں کو بھی میں براہ راست ذمہ دار ٹہراوں گا کیونکہ اپنی شادیوں کو انجام دیتے وقت اور اپنی دولت کو دنیا کے سامنے ظاہر کرتے وقت انہوں نے سماج میں رہنے والے پسماندہ، غرباء اور مالی طور پر کمزور لوگوں کا ایک بھی بار ذہن میں یہ خیال نہیں لایا کہ اگر ہم اس وقت رسم و رواجات کے نام پر بے ہودہ حرکات کرے تو سماج میں رہنے والے غریب لوگ شادیاں کیسے انجام دینگے۔ ایک بھی بار یہ نہ سوچا کہ ہماری عیاشی سے براہ راست معاشرے پر منفی اثرات پڑیں گے۔ ایک بھی بار سمجھنے یا ایک دوسرے کو سمجھانے کی زحمت نہ کی کہ جو ہم سرعام موٹے موٹے رقومات، سونا، چاندی، گاڑیاں اور دیگر غیر ضروری اشیاء کا تبادلہ کر رہے ہیں یہ غریب لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے خودکشی کا سبب بن سکتا ہے! یہ ایک غریب باپ اور بھائی کو مقروض بنا سکتا ہے! اس سے بھائی اپنی بہنوں کو بوجھ سمجھ سکتے ہیں، اور رشتوں میں فاصلہ اور درارے پیدا ہوگی! اسے ایک دوسرے کے لئے پیار و محبت ختم ہوگا اور حسد، بغض و نفرت عروج پر پہنچیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو! آئیے ہم سب مل کر نکاح کو سادہ اور عام کرے، اور شادیوں میں بے ہودہ حرکات، فضول خرچی، رسومات اور بدعات کو نیست و نابود کرے۔ آئیے ہم سب مل کر نوجوان نسل کو بد اخلاقی ، بے حیائی اور برائیوں سے دور رکھے۔ آخر میں ان تمام خاندانوں اور گھرانوں کو میں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں جو اس ظالم سماج میں بہی شادیوں کو صادگی سے انجام دے رہے ہیں یا جنہوں نے دی ہیں۔ یہ انتہائی خوش آئیند بات ہے۔ اور میں اللہ تعالی سے دعا گوں ہوں کہ ہم سب کو نکاح اس طریقے سے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے جس طور طریقے سے کائنات کے صادق الامین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دینے کی تعلیمات دی ہیں۔ آمین!