از قلم: محمد یونس بن مقبول
درویش باغ پٹن بارہمولہ
دین اسلام کا سورج طلوح ہونے سے قبل دنیا ئے عرب سیاہ اندھیرے میں گھری ہوئی تھی ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا کہیں بھی امن نام کا کوئی دیا جلتا ہوا نہ دکھائی دیتا تھا ۔ ہر جانب ظلم وبربریت کا دور تھا انسا نیت کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا تھا کہ کبھی رنگ و نسل کے نام پر کبھی زبان و تہذیب کے نام پر اور کہیں قومیت کی آڑ میں انسانیت کو اس طرح نیست و نابود کر دیا گیا تھا کہ انسانیت خود چیخ پڑی تھی۔ یہاں تک اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا جو اک واضح مثال ہے سیاہ اندھیرے کی ، اور عورتوں کو اپنی پاؤں کی جوتی تصور کرتے تھے بلکہ پوری دنیا میں بد امنی اور بے چینی کا یہ عالم تھا کہ انسانوں کو جانوروں سے بھی بد تر سمجھا جانے لگا تھا، بعض امراء اپنے سے غریب کو اپنا غلام اورزرخرید جانور سمجھتے تھے ۔ اور ان سے ایسا سلوک کیا جاتا تھا کہ انسانیت ہی شرما جاتی تھی۔صرف اہل عرب ہی نہیں بلکہ پوری دینا تہذیبی ، اخلاقی اور معاشرتی برائیوں کا شکار تھی۔ اس کی ایک وجہ یہودیوں اور عیسایوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں اپنی مرضی سے اپنے کام آنے والی تبدیلیاں کی تھی ۔دین کو علمائے یہود و نصاریٰ نے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شرو ع کردیا تھا اور ہر شخص میں مادیت کو پروان ملتا چلا گیا۔عرب کے صحرائوں میں انسان نما جانور بستے تھے یہ لوگ اس حد تک جہالت میں مبتلا ہو چکے تھے کہ انہیں خونی رشتوں کی کو ئی پاسداری کا خیال نہیں ہو تا تھا اور ان کے دلوں میں تھوڑا سا بھی خوف خدا اور انسانیت نامی چیز نہیں ہو تی تھی۔ اس زمانے میں بھی چند ایک مذہبی پیشوا اور اخلاق کے علمبردار وں نے اپنی سی کوشش کو اور اپنے خطبوں میں امن اور محبت کے گیت گائے لیکن اُن کی اِن کاوشوں سے کچھ حاصل نہ ہوا کیوں کہ و ہ خود اپنے کہے پر عمل نہیں کرتے تھے۔
جب دین اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا اور ہمارے پیارے نبی کریم ؐ نے سچے دین کا درس دنیا شروع کیا اور دینا کہ سامنے ایک مکمل ضابطہ اخلاق اور مکمل نظام زندگی اور ابدی دین فطرت پیش کیا جس کا نام اسلام تھا جس کا مطلب ہی امن و سلامتی ہے ۔ دین اسلام کے درس کے بعد سسکتی ہو انسانیت کی ڈھارس بندہ گئی تشنہ کاموں کی سیرابی کا انتظام ہو گیا ۔ دین اسلام نے مظبوط اور باعمل بنیادوں پر امن وسلامتی کے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ یہ مقام دنیا کہ اور کسی بھی مذہب کو نہیں ملا کہ سوائے امن و سلامتی ، محبت اور عزت کے علاوہ اور کوئی بات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔دین اسلام نے سارے مذاہب کی خوبیوں کو اپنے اندر سمو لیا۔اللہ پاک نے قرآن شریف میں آیت نازل فرما دی ( ترجمہ ) آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام دین کے طور پر پسند کیا: اسلام سے قبل انسانیت کا وہ احترام جو دین اسلام نے دیا کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔ انسانی جان کی قیمت ایک جانور سے بھی کم تھی لیکن دین سلام نے وہ احترام بخشا کہ رب کائنات نے قرآن پاک میں فرما دیا : اسی لئے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے یہ حکم جاری کر دیا کہ جو شخص کسی انسانی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمینی فساد برپا کرنے کے علاوہ کسی اور سبب سے قتل کرے گو یا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے کسی انسانی جان کوبچایااس نے گویا پوری انسانیت کو نئی زندگی بخشی:۔
دین اسلام میں امن کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے آخری نبیؐ کی جائے ولادت (حرم شریف) مکہ مکرمہ کو امن کا گہوارہ قرار دیاگیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اس کی حدود میں داخل ہونے والاہر شخص امان میں ہوگا:۔ اسلام امن وسلامتی کا علمبردار اور محبت و خیر سگالی کو فروغ دینے والا مذہب ہے جس میں ظلم و تشدد کی کوئی گنجائشن نہیں ہے، دہشت اور خوف کا کوئی تصور نہیں ہے، رنگ ونسل اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق کا بالکل جواز نہیں ہے۔ اسلام عدل و سچائی اور امن پسندی کا دین ہے۔ یہ دین اسلام کی تعلیمات کا ہی فیضان ہے کہ ہمارے پیارے نبیؐ کے بتائے ہوئے راستے اور سکھائے گئے عمل سے پوری دنیا میں اس مذہب کو امن و سلامتی والا مذہب گردانا جاتا ہے۔ لیکن چند مٹھی بھر ضمیر فروش سرپسند عناصر اپنی دنیاوی لالچ اور کینہ پروری کی وجہ سے دنیا میں اس مذہب کو اسلام مخالف قوتوں کے بہکاوے میں آکر بدنام کر رہے ہیں ورنہ اسلام تو جانوروں پر بھی ظلم کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔غرض یہ کہ اسلام کا وجود و ظہور انسانی تاریخ کا سب سے اہم اور انتہائی قابل قدر دین ہے جس نے انسانی زندگی کے دھارے کو شر سے خیر کی طرف اور اندھیرے سے روشنی کی طرف پھیر دیا۔