رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
جب سے لاک ڈاون کا اطلاق عمل میں لایا گیا تب سے وہ بالکل بھی کتابوں کی طرف نہیں دیکھتا ۔ دن بھر صرف موبائل فون پر گیمز کھیلنے میں مصروف رہتا ہے ۔ میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ اس کو موبائل فون لانا ہی نہیں ہے ۔ باقی بچے موبائل فون کا مثبت استعمال کرکے مستفید ہورہے ہیں لیکن اس کو بالکل بھی اپنے مستقبل کی فکر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
عشرت اور اسکا شوہر الطاف اپنے بیٹے کامران کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
الطاف ۔۔۔۔۔ میں اس کے لئے موبائل فون بالکل بھی نہیں لاتا لیکن جب اسکول انتظامیہ نے مجھے بار بار اسرار کیا تب ہی میں مجبور ہوگیا اس کو فون لانے کے لئے ۔ میں دفتر میں پہنچتا تھا تو اسکول کے پرنسپل مجھے صبح سویرے ہی فون پر بتاتے تھے کہ آج بھی کامران نے آن لائن کلاس میں شمولیت نہیں کی ۔۔۔
عشرت ۔۔۔۔۔ وہ کب آن لائن کلاس میں شرکت کرتا ہے۔ مجھے پتہ چلنا چاہیئے ۔ میں اسکو میڈم کے سامنے شکایت کروں گی ۔۔
اگلے دن کامران آن لائن کلاس میں مشغول ہے تو اس کی ماں عشرت بھی سامنے ہی بیٹھی ۔ وہ بھی میڈم کا لیکچر غور سے سن رہی ہے ۔ میڈم کسی پارک میں گھومتی نظر آرہی ہے اور کافی شور بھی سنائی دے رہا تھا جس وجہ سے بچے ٹھیک طرح سے نہیں سن پارہے تھے ۔ عشرت کو بھی میڈم کا یہ رویہ ناگوار گزرا ۔ اس نے اپنے شوہر الطاف کو بھی بتایا کہ آن لائن کلاس دیتے ہوئے میڈم کسی پارک میں گھوم رہی تھی اور وہاں کافی شور سنائی دے رہا تھا جس کی وجہ سے بچوں کو تکلیف اٹھانی پڑی ۔
میڈم کے خلاف میں اسکول کے پرنسپل سے شکایت کروں گی تاکہ بچوں کا مستقل برباد ہونے سے بچایا جائے ۔۔۔۔۔۔ عشرت نے الطاف کو کہا۔۔۔۔۔۔
نہیں پہلے میڈم سے ہی پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کیا۔۔۔ الطاف نے بیوی کو واپس جواب دیا ۔۔
جب عشرت نے فون پر میڈم سے پوچھا تو میڈم نے یہ جواب دے دیا ۔۔۔
"” میری ماں تین دن سے ہسپتال میں ایڈمٹ ہے ۔ بچوں کا مستقل نظر میں رکھتے ہوئے میں نے ان کا آن لائن کلاس ہسپتال کی پارک میں ہی لینے کا تہیہ کیا ہے تاکہ ان کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو جائے ۔ اسی لئے وہاں گاڑیوں کا شور سنائی دے رہا تھا جس کے لئے میں تمام بچوں اور انکے والدین سے معذرت خواں ہوں "””
میڈم کے یہ الفاظ سنتے ہی عشرت چپ ہو گئی ۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔