افسانہ نگار: اربینہ قیوم
طالبہ، شعبہ اردو، کشمیر یونی ورسٹی
اجمل خان گھر میں اکیلا بیٹھاتھا اورسامنے رکھی پلیٹ میں سے گوشت کی بوٹیاں یک بہ یک کھا رہا تھا۔ پلیٹ کی دوسری جانب جوس اورکیلے رکھے ہوئے تھے۔ اجمل خان من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ گوشت کھانے کے بعد وہ بڑے آرام اور مزے کے ساتھ جوس اور کیلا کھالے گا۔وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔وہ دروازہ کھول دیتا ہے تو سامنے سے کمال صاحب نظر آتے ہیں۔
کمال صاحب: اسلام علیکم اجمل خان
اجمل خان: وعلیکم اسلام کمال صاحب
اجمل خان کو پتہ نہیں کیوں کمال صاحب کے چہرے پر ناراضگی اور خفگی کے آثار دکھائی دئیے۔گو کہ اُن کے درمیان ایسا کوئی معاملہ بھی پیش نہیں آیا تھا جس کے بہ موجب کمال خان اپنی ناراضگی اور غصے کا اظہار کر دیتے۔بہر کیف اجمل خان نے کمال خان کی اس کیفیت کو یہ سوچ کر نظر انداز کر دیا کہ یہ اُس کا وہم بھی ہو سکتا ہے۔
کمال صاحب: بھئی! میں یہاں تمہارے پاس نہ آتا لیکن کیا کروں گوشت کی خوشبو مجھے یہاں تک کھینچ لائی ہے۔
اجمل خان: جی! گوشت تو پکا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ۔۔کہ۔۔۔ میری بیوی آج میکے گئی ہوئی ہے۔
کمال خان:اوہ ہ ہ ہوو و و!تو یہ بات ہے! تو بیوی کے میکے جانے کی خوشی میں تم خوب مزے کررہے ہو۔مجھے لگا تمہاری بیوی کے ہاتھ کے بنے گوشت کی خوشبو مجھے یہاں تک لے آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بھی گوشت بہت اچھا بنا لیتے ہو۔چلو! اچھی بات ہے۔
کمال خان: ویسے اجمل ایک بات بتاؤں،میں نے سنا ہے کہ تم جو کچھ کماتے ہو وہ سب منشیات اور شراب نوشی میں اڑا دیتے ہو اور اپنے بیوی بچوں کو ترساتے ہو۔اکثر اپنی بیوی کو مارتے پیٹتے ہو اور گھر کے اخراجات خریدنے کے لیے بھی تمہارے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ کیا یہ سچ ہے۔؟
اجمل خان:صاحب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگ پتہ نہیں ایسا کیوں بولتے رہتے ہیں۔
کمال خان: اگر تمہارے پاس دال روٹی خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں تو گوشت اور میوے خریدنے کے لیے تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے۔؟
کمال صاحب کا بس اتنا کہنا اور اجمل خان غصے سے لال ہوگیا اور وہ مسلسل اُن کی طرف غصے سے بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔
کمال خان:دیکھو اجمل! اللہ میاں کے قہر سے ڈرو۔یہ دنیا مکافات عمل ہے۔بس اتنا کہنے کے بعد کمال صاحب وہاں سے نکل پڑتے ہیں۔
اجمل خان ایک شرابی تھا۔ دن بھر جو کچھ کما لیتا تھا، اُسے شام میں شراب میں اڑا دیتا تھا۔ اور یہ اُس کا معمول بنا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کے اخراجات خریدنے کے لیے بھی اُس کے پاس کچھ بھی نہ بچتا تھا۔اس طرح اُس کی رخسانہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگئی۔کبھی کبھار کسی گھر میں کچھ کام بھی کر لیتی تھی اور تھوڑے بہت پیسے کما بھی لیتی تھی۔لیکن اس پر بھی اُس بے چاری کو مار پڑتی تھی۔ جب اجمل خان رخسانہ کو گھر میں نہیں پاتا تھاتو واپس لوٹنے پر وہ اُسے بہت مارتا تھا۔مار کھانے کے باوجود بھی وہ بے چاری گھر میں ہی پڑی رہتی تھی۔کیوں کہ اُسے معلوم تھا کہ اگر وہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی تو اُس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔ دوسری وجہ گھر سے نہ بھاگنے کی یہ بھی تھی کہ اُس کے ماں باپ انتقال کر گئے تھے۔ہاں البتہ دو بھائی تھے لیکن وہ بھی اپنے اپنے کاموں میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ اُنھیں اپنی بہن کا کوئی خیال ہی نہیں تھا۔اب اگر ناچارگی میں اپنے بھائیوں کے پاس چلی بھی جاتی تھی تو بھابیوں کو برداشت نہیں ہوتا تھا کہ وہ وہاں رہے۔
اُنھیں بھی وہ کھٹکتی تھی اور اُسے پھر طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔یعنی وہ اب اپنے بھائیوں سے بھی اُمید چھوڑ چکی تھی۔ رخسانہ نے اجمل کو سدھارنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ہر بار ناکام رہی۔یہاں تک کہ وہ گاؤں کی کمیٹی کے پاس بھی گئی تھی تاکہ وہ اجمل کو بلا کر اُسے سمجھائیں۔ہوتا یوں تھا کہ کچھ دنوں کے لیے ایسا لگتا تھا کہ وہ سدھر گیا ہے لیکن وہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تھا۔وقت یہاں تک آن پہنچا کہ پیسوں کے بدلے وہ اب سیگریٹ کے ایک پیکٹ یا شراب کی ایک بوتل کو پورے دن کی اجرت کے طور پر لینے لگا۔ادھر اُس کی بیوی رات دیر تک اُس کا انتظار کرتی رہتی تھی۔اب آس پاس کے لوگ بھی رخسانہ کے صبر و استقلال سے گویا تنگ آنے لگے اور اُسے طرح طرح کی باتیں سنانے لگے۔کوئی اُسے اپنی جوانی خراب کرنے کے لیے کوستا تھا تو کوئی گھر چھوڑنے کی صلاح دیتا تھا اور کوئی اُسے اجمل خان سے طلاق لے کر دوسری شادی کر نے کی تجویز دیتا تھا۔خیر جتنے منہ اُتنی باتیں۔۔۔لیکن رخسانہ کو کبھی گھر چھوڑنے کا خیال تک نہیں آتا تھا۔کیوں کہ وہ سوچتی تھی اگروہ گھر چھوڑ کر چلی گئی تو اجمل خان پیچھے سے اُس کے بچوں کو بھی مار دے گا۔رخسانہ اجمل کی بری عادتوں سے بہت تنگ آچکی تھی۔وہ من ہی من میں چاہتی تھی کہ اجمل ہی کہیں مر جائے تاکہ اُس کی جان چھوٹ جائے۔کیوں کہ وقت یہاں تک آیا تھا کہ اب اُسے کوئی بھیک بھی نہیں دیتا تھا۔ جہاں کہیں بھی وہ بھیک مانگنے جاتی تھی لوگ اُسے تانے دینے لگے۔
اُس کی جوانی کو لے کر طرح طرح کی باتیں سنانے لگے تھے۔ایک روز جب پانی سرسے اُوپر چلا گیا تو رخسانہ اجمل کے خلاف تھانے میں رپورٹ لکھوانے گئی۔ جب اُس نے اپنی ساری داستان غم سنا دی تو تھانے دار نے کہا کہ وہ شام میں اُس کے گھر آجائیں گے اور اجمل کو پکڑ کر تھانے لے آئیں گے۔شام بھی ہوچکی لیکن تھانے دار صاحب کہیں نظر ہی نہیں آئے۔ نظرآتے بھی کیسے۔۔۔ اُن کو پتہ چل چکا تھا کہ وہ ایک غریب عورت ہے جسے ایک پیسہ بھی دینے کی اوقات نہیں ہے۔تھانے دار صاحب رخسانہ کے گھر نہیں آئیں گے؛ اس کا اندازہ اُسے تھانے میں ہی ہوگیا تھا جب وہاں موجود رشید صاحب کی بہواپنے سسرال والوں کے خلاف رپورٹ لکھوانے آئی تھی تو تھانے دار صاحب فوراً اُس کے ساتھ نکل پڑے تھے۔ کیوں کہ رشید صاحب کی بہو ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔اُسے انصاف ملنے میں تھوڑی سی بھی دیر نہیں لگی اور رخسانہ کے جسم پر اجمل کی مارپیٹ کے زخم آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔