تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹیچوٹ پرے پورا
رابطہ نمبر:6005465614
باطل و نا حق سے امید کرم کرتے رہے
جو نہ کرنا تھا ہمیں وہ کام ہم کرتے رہے
سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل اسلام کے محبوب ترین شہزادے ہیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم ﷺ کے دو پھول تھے دنیا میں۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نواسہ رسول ﷺ اور فاطمہ کے نور نظر ہیں۔ خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لخت جگر ہیں۔سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔حسین نبی کریم ﷺ سے ہے اور نبی کریم ﷺ حسین سے ہیں۔یہ وہ عظیم بشر ہیں کہ جن کی شھادت پر جنات نے بھی رویا۔ اس دنیا میں سرتاج رسل کی خوبصورتی کا دوسرا مثل سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ شھادت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقیناً اہل اسلام کے لئے دلخراش سانحہ ہے۔ نبوی رحلت کے بعد ہی ملت اسلامیہ مختلف فتنوں کے ذریعے آزمائی گئی، کبھی منکرین زکات کا فتنہ اٹھا تو کبھی فتنہ ارتداد۔ یک بعد دیگرے صحابہ کرام و اہل بیت اطھار پر مظالم ڈھائے گئے۔ابو جھل کی رسم بد پر عمل کرتے ہوئے مجوسی زندیق نے سیدنا عمر فاروق کو شھید کردیا۔شھادت عمر کے بعد ملت اسلامیہ کے صفوف میں مستشرقین کی جماعت نے گھر کر لیا اور اس طرح شرم و حیا کے علمبردار سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دردناک انداز میں شھید کردیا گیا۔ معاملہ یہاں ہی نہیں رکا بلکہ اسلام کے نام لیوا غداروں نے سیدنا علی کو شھادت تک پہنچایا۔خلفاء اربع کے بعد حسنین کریمین کو بھی نہ بخشا گیا۔ اہل بیت اطھار کے حقوق کے معاملے میں نبی کریم ﷺ نے رحلت سے قبل وصیت بھی کی تھی۔سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دے کر شھید کردیا گیا اور پھر چھوٹے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میدان کربلا میں تڑپ تڑپ کر شھید کردیا گیا۔ عبیداللہ بن زیاد زندیق نے شھادت کے بعد بھی حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ بخشا بلکہ شھادت کے بعد سر کاٹ کر اس کے ساتھ اپنے نجس اور غلیظ ہاتھوں سے کھیلنے لگا اور حسن حسین میں تنقیص کرنے لگا۔ نہ ان قاتلین کو نبی کریم ﷺ کی شرم آئی نہ اللہ کے قہر کا خوف ان کے دلوں پر طاری تھا لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں اللہ تعالیٰ نے چن چن کر دنیا کے اندر ہی ان زندیقوں کی گرفت کی۔
علماء اسلام سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کرنے والے ہیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے قلوب کی دھڑکن ہے۔ ہماری جان و مال قربان ہوں حسنین کریمین کے نعلین پر۔صحابہ کرام و اہل بیت اطھار کی محبت ایمان، اسلام اور احسان ہے جبکہ ان سے بغض کفر، نفاق اور زندیقیت ہے۔اہل سنت قاتلین صحابہ کرام و اہل بیت سے براءت کا اعلان کرتے ہیں اور ان سبھی افراد کو قابل لعنت سمجھتے ہیں جنہوں نے کسی بھی اعتبار سے ان کی شھادت میں حصہ لیا۔ امام احمد، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، امام ذہبی، امام طحاوی، بشر حافی، قاضی عیاض مالکی، فضیل بن عیاض وغیرہ علماء نے صراحت کے ساتھ قاتلین صحابہ کرام و اہل بیت اطھار پر لعنت کی ہے۔صحابہ کرام و اہل بیت اطھار کے قاتلین کوئی بھی ہو، ہماری نظروں میں قابل نفرت ہیں۔صحابہ پر مظالم کے بعد شر پسند عناصر افراد نے کعبہ کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا، واقعہ حرا تاریخ اسلام میں ایک سیاہ داغ ہے جسے پڑھ کر اور سن کر کلیجا منہ کو آتا ہے۔واقعہ حرا کے ساتھ ہی مدینہ نبوی پر چڑھائی کی گئی۔جو افراد عدل سے کام لیتے ہیں وہ کسی بھی طرح ان واقعات کا باطل دفاع نہیں کرسکتے۔ ہاں جن کے بارے میں تاریخ نے دو پہلو بیان کئے ہوں اور فقہاء اور محدثین کا اختلاف ہو وہاں سکوت ہی بہتر ہے۔جن صحابہ کی تربیت نبی کریم ﷺ نے اپنے اقوال و افعال سے کی، ان کو ایک ایک کرکے قتل کرنا وقت کے ارباب اقتدار نے اپنا مقصد ہی بنا لیا تھا جیسے حجاج بن یوسف وغیرہ۔شھادت حسین کی خبر نے سرتاج رسل کو حیات مبارکہ میں ہی آنسو بہانے پر مجبور کردیا۔ مبارک آنکھوں سے کسی کے لئے آنسو بہنا کوئی معمولی مسئلہ نہیں۔ بے غیرت اور دیوث قاتلوں کو نبی کریم ﷺ کے آنسو کا پاس و لحاظ بھی نہ رہا۔
اللہ عزوجل کے نذدیک سب سے بدترین انسان وہ ہے جو ذوالوجھین یعنی دو چہرے والا ہو۔ دو رنگی انسان کو اسلام نے منافق کا نام دیا ہے۔ ہم نے وفا کو فقط تحریروں اور تقریروں تک ہی محدود رکھا۔عملی زندگی میں ہم نے کبھی پیغام حسین کو نہ اپنایا۔ عصر حاضر میں ملت اسلامیہ کس فعل بد میں مبتلا نہیں۔ شرک و بدعات، فسق و فجور، فحاشی و عریانی، سودخوری، قتل و خون ریزی، منشیات کی ضلالت اپنی انتہا کو پہنچ چکی
ہیں۔ صحابہ اور اہل بیت کی نصبت کرنے والے ہم مسلمان آج خود منکرات، محرمات، منہیات، لغویات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔شعراء نے اپنے کلام کے ذریعے، واعظین نے اپنی خطابت کے ذریعے، اہل قلم نے اپنے مضامین کے ذریعے، نعت خوانوں نے اناشید کے ذریعے، عوام الناس نے اپنی عقیدت کے ذریعے سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد کیا لیکن جب بات عمل کی آتی ہے وہاں نہ کوئی شیعہ۔۔۔ نہ کوئی سنی۔۔۔۔۔۔سبھی منفی کردار والے بن جاتے ہیں۔ آج صحابہ و اہل بیت کا نام لینے والے ہی بے نمازی ہیں، نہ فجر میں شمولیت نہ عشاء کی فرصت۔ ان بزرگ ہستیوں کی طرف نصبت کرنے والے ہی بہنوں اور بیٹیوں کی وراثت کا حق تلف کرکے اپنی پیٹوں میں جہنم کے انگارے بھر رہے ہیں۔ سلف و صالحین کی طرف خود کو نصبت کرنے والے کا نکاح، ماتم، کاروبار، سیاست غرض سب کچھ مغربی افکار کے بھینٹ چڑھ چکا ہے۔نہ ہم میں ذوق عبادت نہ شوق تلاوت۔۔۔۔ نہ ہم میں کردار کی صفائی نہ غیرت کی بڑھائی۔۔۔۔ بد نگاہی، بدکرداری نے ہماری روح کو مردہ بنا دیا ہے۔ اسلام کے شعائر یک بعد دیگرے گر رہے ہیں، اغیار اسلام کی حقانیت کو مشکوک بنانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھا رہے ہیں ، طاغوتی طاقتیں غزوہ فکری کے ذریعے ہمارے گھروں میں اپنے مراکز قائم کرچکے ہیں…… اور ہم خواب خرگوش میں ہوائی پلاو پکا رہے ہیں۔
رب کی رحمت سے تمہیں ایمان کی خوشبو ملی
سنتِ سرکار اور قرآن کی خوشبو ملی
نغمۂ توحید اور آذان کی خوشبو ملی
اجنبی شہروں میں بھی عرفان کی خوشبو ملی
نو جوانو! دین کی تعلیم اب زندہ کرو
چھوڑ دو باطل عمل، اب حق کو تابندہ کرو
ضرورت اس بات کی ہے کہ پیغام حسین کو عام کیا جائے۔ اقوال و افعال کے تضاد کو مٹایا جاۓ۔ احکام ربانی، اوامر و نواھی کو اپنے نفوس پر نافذ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں علم نافع کے ساتھ عمل صالح کی توفیق عنایت فرماۓ۔۔۔۔ آمین یا مجیب السائلین۔