غازی عرفان خان
رابطہ؛منیگام گاندربل، کشمیر
شہریار کام سے تھکا ماندہ بھوک سے نڈھال اور پسینے سے شرابور گھر لوٹ رہاتھا۔گھر پہنچا تو ماں سے کھانا لگانے کو کہا۔ماں نے پانی کا ایک گلاس تھماتے ہوئےکہا کہ بیٹا تم ہاتھ منہ دھولو تب تک میں کھانا لگاتی ہوں۔
شہریار واش روم کی طرف چلا گیا اورفریش ہوکرکے آیا۔ ماں نے بڑی شفقت سے شہریار کے سامنے کھانا رکھا ۔
شہریار نے جونہی کٹوری کی طرف دیکھا تو سبزی دیکھ کر موڈ خراب ہوگیا اور وہ ماں پر برس پڑا اورکھانا وہیں چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوگیا۔ ماں نے بہت روکنے کی کوشش کی اور کھانا کھانے کے لیے منتیں کیں،لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ گھر سے باہر نکل گیا۔
گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پبلک پارک ہے ۔وہ وہیں مایوس ہوکر بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔
چونکہ مغرب کا وقت قریب ہی تھا وہ اٹھا اور نماز کے ارادے سے مسجد کی جانب چلا گیا ۔
انکل انکل! کچھ کھانے کےلئے دو ۔۔بہت دنوں سے بھوکے ہیں۔ بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ پاس میں ہی کچھ چھوٹے بچے مقامی لوگوں سے کھانے کی بھیک مانگ رہے تھے لیکن ان کی بات کون سننے والا تھا۔۔۔۔ یہ بچے خالی ہاتھ نکلے ۔۔۔کھانے کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔۔اسی وقت ایک گھر سے ایک عورت نکلی جس کے ہاتھ میں کچھ برتن تھے ۔۔بچے خوش ہوئے ۔۔۔کیونکہ برتن میں پکے ہوئے چاول اور سالن تھا۔۔ لیکن اس عورت نے یہ کھانا سڑک کے ایک کنارے جانوروں اور پرندوں کے لیے پھینک دیا۔۔وہ پکا ہوا چاول اور سالن کئی دنوں کا سڑا ہوا تھا لیکن وہ بچے اسی کھانے پر جھپٹ پڑے۔۔۔شہریار یہ صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔۔۔مسجد میں نماز مغرب ادا کرکےرب کا شکر ادا کیا کہ تو نے مجھے کھانے کی نعمت عطاکی ہے اور میں اس کی ناقدری کرکے گھر سے چلا آیا۔ مسجد سے نکل کر اس نےفوراً گھر کی طرف دوڑ لگائی۔ ماں سے معافی مانگی اور کھانا کھایا۔