مضمون نگار: زاہد احمد خان
طالب علم، شعبہ اردو،
کشمیر یونی ورسٹی، سری نگر
انسانی زندگی کو موٹے طور پر تین مراحل میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔بچپن،جوانی اوربڑھاپا۔اگر دیکھا جائے تو تینوں مراحل میں جوانی کا مرحلہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔اس مرحلے میں جسمانی قوت اور جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔معاشرے میں کسی بھی قسم کا انقلاب بپا کرنا،معاشرے کے لیے ایک نئے رخ کا تعین کرنا اور یہاں تک کہ ہواؤں کا رخ بدلنے کے لیے جوانی اورنو جوانوں کی صلاحیتیں مرکزی کردار انجام دے سکتی ہیں۔ قوم میں نئی روح پھینکنا، نئی اُمنگیں پیدا کرنا،آندھیوں سے لڑنا،امن و سلامتی اور فلاح و بہبود ی کے سرخیل کی طرح اپنی قوم کے لیے ترقی کے زینے طے کرنے کا اصل دارو مدار نوجوان نسل پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو قوم کے اصل اثاثے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جوانی زندگی کا سنہرا دور ہونے کے ساتھ ساتھ نازک اور حسین بھی ہوتا ہے۔اس میں ایک طرف انسان کو لامتناہی توانائیاں بخشی گئی ہوتی ہیں لیکن وہیں دوسری طرف خطرے بھی زیادہ لاحق ہوتے ہیں۔اگر نوجوان اپنے شعور اور عزم و استقلال سے کام لیں تو وہ ہمالیہ کی بلندیوں کو سر کر سکتے ہیں۔نیزسمندروں کے جگر کو چیر سکتے ہیں اورزمین کے پوشیدہ خزانوں کو دریافت کر سکتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ تسخیر آفتاب و ماہتاب کا بھی عزم کر سکتے ہیں۔کیوں کہ جوانی بدن میں طاقت،بازووں میں زور،دلوں میں جذبات اورہمت و حوصلے سے پر ہوتی ہے۔ اس دوران انسان جو چاہے کر گزر سکتا ہے اور جس چیز کی بھی ٹھان لے گا؛ اُسے پوراکر کے ہی دم لے سکتا ہے۔قوموں کی ترقی اور تنزلی میں نوجوانوں کا کلیدی کرداررہتا ہے۔تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ درخشندہ ماضی اور جہدمسلسل کے سرخیل نوجوان ہی تھے۔قبول حق میں سر فہرست رہنے والے نوجوان ہی تھے۔اسی لیے علامہ اقبالؔ اپنے کلام میں جا بجا نوجوانوں سے مخاطب ہو تے ہیں۔:
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
یعنی اقبالؔ کی آرزو تھی کہ مسلمان نوجوان شاہین کی صفات کو اپنا لیں۔کیوں کہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو خود داراور غیرت مند ہے۔وہ کبھی مردار گوشت نہیں کھاتا ہے اگر چہ کئی دن کا بھی بھوکا ہوگا،کہیں پر اپنا آشیانہ نہیں بناتا ہے اور تو اورخلوت پسند اور تیزنگاہ ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؔ چاہتے تھے کہ اگر یہی خصوصیات نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ ایک مثالی قوم کی تشکیل وتعمیر کر سکتے ہیں۔ بہ قول علامہ اقبالؔ اگر نوجوان اپنے اندر شجاعت،جسارت،دلیری،بہادری،خودداری اور غیرت کا جذبہ پیدا کر لیں تو قوم مفلسی کے باوجود حکمرانی کر سکتی ہے کیوں کہ حکومت اور سکندری کے لیے دراصل دولت اور کثرت افراد نہیں بلکہ حوصلے،جسارت اورجگر سوزی درکار ہوتی ہیں۔
اگر جوان ہوں میری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ نوجوان اپنی اُبلتی، اُچھلتی اور اُمڈتی ذہنی اور جذباتی قوتوں کو زیر ضبط رکھیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عصر حاضر میں نوجوانوں کی صورت حال دگرگوں اور ابترہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نو جوان ایک تو مقصد زندگی سے ناآشناہیں اوردوسری طرف اُن میں خود شناسی کا فقدان بھی ہے۔آج کے نوجوان بے غیرتی،کاہلی،ناامیدی اور ذہنی و روحانی خود کشی کے دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہماری قوم کے نوجوان فکری و شعوری اعتبار سے کھوکھلی ہو چکی ہے۔وہ منشیات جیسے دلدل اور دیگربرے کاموں میں ملوث ہوچکے ہیں۔ضمنی طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ جموں و کشمیر میں شراب نوشی اورمنشیات کا بڑھتا رجحان قابل تشویش ہے۔آئے روز منشیات میں ملوث نوجوانوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ موجودہ تحقیق کے مطابق ستّر ہزار نوجوان شراب نوشی اور منشیات کے شکار ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلبا شامل ہیں۔منشیات نہ صرف نشہ آورا فرد کے لیے مہلک ہے بلکہ یہ پورے معاشرے میں ایک ناسورکی طرح پھیل جاتی ہے اور وہ اندر ہی اندر کھوکھلا ہوجاتا ہے۔اس سے نہ صرف معاشرہ بد حالی کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ دوسرے نوجوان بھی ذہنی اعتبار سے مفلوج ہوجاتے ہیں۔اسی سے دوسرا مسئلہ خودکشی کاجڑا ہوا ہے۔ ہندستان میں ہر سال لگ بھگ ایک لاکھ پینتیس ہزار افراد خودکشی کا شکار ہوتے ہیں۔وادی ئ کشمیر کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھی خود کشی کے بہت سارے واقعات پیش آئے ہیں۔جس میں نہ صرف غیر تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں بلکہ کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بھی یہ سنگین قدم اُٹھایا ہے۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری نو جوان نسل جس کے بغیر قوم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاہے؛ اُس نے اپنے ساتھ ساتھ اپنی قوم کو بھی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔میری دانست میں ہمارے نوجوان محدودیت کا شکار ہو چکے ہیں۔اُنھیں اپنی صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو ذاتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ قوم کے تئیں بھی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔ہم اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ کامیاب قوموں کے پیچھے یہی راز پنہاں ہے کہ اُن کی نوجوان نسل نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ تھی بلکہ بہترین اخلاقی اور سماجی کردار سازی اور شخصیت سازی سے لیس تھی۔نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ لایعنی کاموں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے ایسے کاموں میں وقت لگائیں جو نہ صرف اُن کے لیے سود مند ہو بلکہ قوم کے حق میں بھی بہتر ثابت ہوسکیں۔