رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مشہور صحابی ہیں .آپ کا نام عویمر ابن عامرتھا ۔درداءآپ کی بیٹی کا نام تھا. آپ اپنے گھر والوں کے بعد ایمان لائے۔
آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن رواحہ جو اسلام لا چکے تھے .وہ آپ کو اسلام لانے کے بارے میں سمجھایا کرتے تھے .لیکن وہ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے تھے ۔حضرت عویمر نے اپنے گھر میں ایک بت رکھا تھا .جس کی وہ عبادت کیا کرتے تھے.ایک دن حضرت عبداللہ بن رواحہ نے حضرت عویمر کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھایا . اپنے پاس موجود کلہاڑے سے اس بت کو توڑنا شروع کر دیا . بصورتِ شعر بتوں کی مذمت کرنے لگے. اللہ پاک کی وحدانیت کو بیان کرنے لگے ،جب حضرت عُوَیمر گھر آئے .تو ان کی بیوی نے روتے ہوئے سارا واقعہ بتایا .
جسے سن کر آپ غصّہ میں آگئے.قریب تھا کہ اپنے بھائی کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی کرتے لیکن درایں اثناء دل میں ایک خیال پیدا ہوا کہ اگر بت کے پاس کوئی اختیار ،کوئی طاقت ہوتی تو خود وہ اپنی حفاظت کر لیتا۔ پس رحمتِ خداوندی نے دستگیری کی ۔آپ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔
حضرت محمد بن کعب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں .
ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں چند مہمان آئے . سخت سردی کا موسم تھا .جب رات ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمانوں کے لئے سادہ سا کھانا بھجوایا . سردی سے بچاؤکے لئے بستر وغیرہ نہ بھجوائے .مہمانوں میں سے کسی نے کہا :
ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنی سخت سرد رات میں صرف سادہ سا کھانا بھجوایا . بستر وغیرہ نہیں بھجوائے . میں اس کی وجہ ضرور معلوم کروں گا۔دوسرے نے کہا :اس معاملے کو چھوڑو! لیکن وہ شخص نہ مانا . حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی جانب چل دیا. وہاں جاکر اسے معلوم ہواکہ حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس اتنی سرد رات میں بھی صرف اتنا لباس تھا .جس سے ستر پوشی ہوسکے اس کے علاوہ کوئی لحاف وغیرہ نہ تھا ۔
اس مہمان نے کہا :اے ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ !کیا بات ہے کہ آپ نے بھی ہماری طرح بغیر لحاف کے رات گزاری ہے ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً فرمایا:بے شک ہمارے لیے آخرت میں ایک گھر ہے جس کی طر ف ہمیں منتقل ہونا ہے. ہم نے تمام لحاف اور بستر وغیرہ اس گھر کی طرف بھیج دیئے ہیں.اگر میرے پاس کوئی بستر وغیرہ ہوتا تو میں ضرور اپنے مہمانوں کو دے دیتا . سنو! ہمارے سامنے ایک دشوار گزار گھاٹی ہے جسے کمزور شخص ، زیادہ وزن والے کی نسبت جلدی پار کرلے گا ۔
اے شخص !جو بات میں نے تم سے کی ہے کیا تم سمجھ گئے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری اُمّت کے حکیم عُوَیْمَر (ابودرداء) ہیں۔
آپ کا وصال ۳۲ھ۔ میں حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں وفات پائی،دمشق میں آپ کی قبر ہے۔
.اللہ پاک نے آپ کو کمال حکمت عطا فرمائی تھی ، آپ کے ایک مشہور قول پر میں اس موضوع کا اختتام کرتا ہوں ۔
: اے لوگو! خوشحالی کے ایام میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرو تاکہ وہ تنگی و مصیبت میں تمہاری دعاؤں کو قبول فرمائے۔
اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام کی سچی محبت و اتباع نصیب فرمائے! آمین ۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔