کالم: فہم و ادراک
عمران بن رشید
سیرجاگیرسوپور‘کشمیر
8825090545
لفظ ”عید“کااطلاق لغت میں ہر اُس دن پر ہوتا ہے جس میں کسی بڑے واقعے کی یادگار منائی جائے اور جو تسلسل کے ساتھ ہر سال آتارہے۱؎۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عید اُس اجتماعِ عام کوکہتے ہیں جو طے شدہ پروگرام کے مطابق باربار منعقد ہو خواہ ہر سال ہو‘ہر مہینہ ہو یا ہر ہفتے۲؎۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ لکھتے ہیں کہ ”عید کو عید اس لئے کہا جاتاہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فرحت ومسرت کو لوٹاتے ہیں“۳؎۔ ”اعیاد“اس کی جمع ہے‘لیکن قاعدے کے مطا بق اس کی جمع”اعْواد“آتی ہے۔پھر ”اعیاد“اس کی جمع کیوں بیان کی جاتی ہے مولانا عبدالحفیظ بلیاوی حفظہ اللہ نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ عربی میں چونکہ لکڑی کے لئے ”العُوْد“کا لفظ مستعمل ہے جس کی جمع ”اعْواد“ بنتی ہے لہذا ان دو میں تفریق کی غرض سے عید کی جمع”اعیاد“لائی جاتی ہے۔
یہی بات مولاناعبیداللہ مبارک پوری نے بھی لکھی ہے‘کہتے ہیں ”عید کی اصل لفظ”عود“ہے جو عَادَیَعُود سے مشتق ہے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں‘عود کا واؤ ’ی‘سے بدل گیا ہے اس لئے کہ وہ ساکن ہے اور ماقبل اس کے کسرہ(زیر)ہے جیسا کہ لفظ میزان اور میقات میں واؤ ”ی“سے بدل گیا ہے‘عید کی جمع اعیاد ہے اس لئے کہ واحد میں لفظ ”یاء“کا لزوم ہے یا لفظ ”عود“بمعنی لکڑی کی جمع اعواد سے فرق ظاہر کرنا مقصود ہے“]بحوالہ شرح صحیح بخاری /داوؤدرازؒ[۔ شریعت کی اصطلاح میں وہ دودن جو مسلمانوں کے لئے ہرسال مجموعی خوشی کے دن ہوتے ہیں ”عید“کہلاتے ہیں ایک ”عیدالفطر“اور دوسرے ”عیدالاضحٰی“۔چنانچہ قرآن میں بھی عیدکا لفظ خوشی کے ہی مفہوم میں آیا ہے۔حضرت عیسٰیؑ سے جب اُن کے حواریوں نے پوچھا تھا کہ کیا آپ کا رب اس پر قدرت رکھتا ہے کہ آسمان سے ہمارے لئے ایک دسترخوان یعنی تیارشدہ کھانا اتار ے؟تو عیسیٰؑ نے دعاکی(قَالَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَااَنْزِلْ عَلَیْنَامَاءِدَۃً مِّنَ السَّمَاءِ تَکُوْنُ لَنَاعِیْدًالِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَاالخ)عیسٰیؑ ابن مریم نے کہا اے اللہ اے ہمارے رب!ہم پر ایک دسترخوان نازل کر آسمان سے جو ہمارے پہلوں اور ہمارے پچھلوں کے لئے عید ہو]المائدہ/114 [۔اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ ”عید ہونے سے مراد عید کا دن ہونا ہے یا نمازگذار نے کا دن ہونا ہے یا اپنے بعد والوں کے لئے یادگارکادن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کے لئے نصیحت وعبرت ہونا ہے یا اگلوں پچھلوں کے لئے کافی وافی ہونا ہے“۔ابن کثیر ؒ نے گویا اس لفظ کاہرپہلو سے احاطہ کیا ہے۔
اب ذرااس طرف بھی آپ کی توجہ مبذول کردوں کہ مشرکینِ عرب اسلام سے پہلے کئی طرح کی عیدیں مناتے تھے جن میں شرکیہ رسومات کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔کبھی بتوں کوچڑھاوا چڑھاتے اور کبھی صالحین کی قبروں پر میلے سجاتے اللہ کے رسول ؐ نے مبعوث ہوکران سب چیزوں کی نفی کردی فرمایا”لَاتَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُم قُبُوْرًا وَلَاتَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیدًا‘‘یعنی اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور نہ ہی میری قبر کو عیدیعنی میلے کی جگہ بناؤ]سنن ابی داؤد/2042[۔حافظ ابن قیمؒ کہتے ہیں کہ ”اسلام سے پہلے مشرکین زمانی ومکانی دونوں قسم کی عیدیں منایاکرتے تھے‘اسلام نے آکر ان سب کو باطل قرار دیا اور ان کے بدلے عید الفطراورعیدالاضحٰی کی صورت میں زمانی عیدیں دیں اور بیت اللہ شریف میں منٰی‘مزدلفہ اور عرفہ کی صورت میں مکانی عیدیں دیں“۴؎۔مختصر یہ کہ عیدین یعنی عید الفطر اور عید الاضحٰی کو دین اسلام میں کافی اہمیت حاصل ہے‘اور یہ ہجرت کے دوسرے سال مشروع ہوئیں ۵؎۔شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی مشہور تصنیف”حجۃ اللّٰہ البالغہ“ میں لکھا ہے کہ جس وقت رسول اللہؐ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے دیکھا کہ وہاں کے لوگوں نے دو دن مقرر کئے ہیں جن میں کچھ غیر شرعی کام کرتے اور لَہو ولَعب میں مشغول رہتے ہیں۔اس پر اللہ کے رسول ؐ نے اعلان کردیا کہ اللہ نے تم لوگوں کے لئے ان دو دنوں سے بہتر دو دنوں کا انتخاب کیا ہے وہ یوم الضحٰی اور یوم الفطر ہیں۔یہ دودن اللہ کے ذکر کے دن ہیں‘شکر بجالانے کے دن ہیں یا عبادت کے دن ہیں۔مگر افسوس آج اکثر وبیشتر مسلمان عیدین پر بے حیائیوں کا ارتکاب کرتے پھرتے ہیں اوراسراف وتبذیر کا تو یہ عالم ہوتا ہے کہ پوچھئے مت‘آدمی دیکھتا ہے تو خون کے آنسو روتا ہے۔کبھی کبھار تو محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان عید کو عبادت نہیں بلکہ آزادی کا دن سمجھتے ہیں اسی لئے اطاعت کا طوق اپنے گلے سے اتار کر ادھر اُدھر نافرمانیاں کرتے پھرتے ہیں۔یاد رکھا جائے کہ اللہ کبھی بے حیائی اور نافرمانیوں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ قرآن گواہ ہے کہ ایسی قومیں اللہ کے شدید غضب کا شکار ہوئیں جن میں بے حیائی اور نافرمانیاں عام ہوئیں۔
(چند احکام ومسائل)
اب ذرا عیدین سے متعلق چند احکام و مسائل بھی جان لیں۔نمازِ عیدین جو تعداد میں دو رکعتیں ہیں‘ہراُس مسلمان پر فرضِ عین ہیں جو اُن کے اداکرنے کا مکلف ہو۶؎۔عید الفطر کی نماز کے لئے جانے سے قبل کھجور کھانا سنت ہے ]بخاری/953[جبکہ عید الاضحٰی کی نماز کے لئے جانے سے پہلے کچھ نہ کھانا سنت ہے]ترمذی/447[۔عید کی نماز عید گاہ یا بستی سے باہر کسی میدان میں ادا کرنی چاہیئے‘یہی مستحب ہے صحیح بخاری میں ابو سعید خُدریؓ کی روایت موجود ہے ”کَانَ النَّبِیُّ ؐ یَخْرُجُ یَومَ الفِطرِوالْاَضْحٰی اِلَی الْمُصَلَی“یعنی نبی اکرمؐ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے دن عید گاہ کی طرف تشریف لے جاتے ]956 [۔اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی آیت ہیں ”فَاَوْلُ شَیءٍ یَبْدَاُ بِہِ الصَّلَاۃُ ثُمَّ یَنْصُرِفْ فَیَقُوْمُ مُقَبِلَ النَّاسِ‘وَالنَّاسِ جُلُوسٌ عَلٰی صُفُوْفِھِم‘فَیَعِظُھُم وَیُوصِیھِم وَیَامُرُھُمْ“یعنی عید گاہ پہنچنے پر سب سے نبی اکرمؐ نماز پڑھاتے اور پھر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے‘لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے اور آپ ؐ انہیں وعظ ونصیحت فرماتے اور حکم کرتے نیکی کا۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ نمازِ کے بعد دیاجائے نہ کہ نماز سے پہلے۔جیسا کہ مروان نے مدینہ کا حاکم بننے کے بعد کیا تھا۔ہمارے یہاں احناف طبقہ کا طریقہ یہ ہے کہ نماز سے پہلے مادری زبان میں کچھ وعظ ونصیحت کرتے ہیں اور نماز کے بعد عربی میں یہی عمل دوہراتے ہیں‘یہ سنت کے بالکل خلاف ہے۔کیوں کہ حدیث میں واضح الفاظ میں کہاگیاہے”فَیَعِظُھُم وَیُوصِیھِم“یعنی رسول اللہ ؐ بعداز نماز لوگوں کو وعظ ونصیحت کرتے تھے اور یہ بھی کہاگیا کہ عید گاہ پہنچنے پر سب سے پہلا کام رسول اللہ ؐ یہ کرتے کہ نماز ادا کراتے ”فَاَوْلُ شَیءٍ یَبْدَاُ بِہِ الصَّلَاۃُ“۔عیدین کی نماز دورکعتیں سنت سے ثابت ہے جیسا کہ عبداللہ ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ عید الفطرکے روز نکلے اور دو رکعتیں نماز ِ عیدپڑھی اور آپ ؐ نے اس سے پہلے کوئی نفل پڑھی اور نہ اس کے بعد]مسلم/884[۔ نمازِ عیدین خاص کر عید الاضحٰی کی نماز سویرے ادا کرنی چاہیئے جب سورج ایک نیزہ بلند ہوجائے۔صحیح بخاری میں ایک معلق روایت ہے کہ عبداللہ ابن بسرؓ نے ملکِ شام میں امام کو دیر سے نکلنے پر ٹوکا اور فرمایا کہ ہم نمازِ عید سے اب تک فارغ ہوجایا کرتے تھے ۷؎۔ نمازِ عیدین میں تکبیرات کا مسلہ بھی بے حد اہم ہے‘اس میں حددرجہ اختلاف پایا جاتاہے۔امام شوکانی ؒ نے ”نیل الاوطار“میں اس مسلہ پر دس مختلف اقوال درج کئے ہیں۔امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک نمازِ عیدین میں چھ زائد تکبیریں ہیں جو اس طرح ہیں کہ پہلی رکعت میں تین تکبیریں تکبیر تحریمہ کے بعد اور دوسری رکعت میں تین قراء ت کے بعد‘اگر چہ کچھ روایات میں اس طرح کرنے کا ذکر ملتا ہے لیکن ان روایات میں کہیں نہ کہیں ضعف پایاجاتا ہے۔چنانچہ عبدالرّحمٰن مبارکپوری ؒ رقمطراز ہیں ] وَاَمامَاذَھَبَ اِلَیہِ اَھلِ الْکُوفَہ فَلَم یُرِدُفِیہِ حَدِیث ٌ مَرفُوع ٌغَیرحَدِیث ِ اَبِی مُوسٰی الاَشْعَری وَقَد عرفت انہ لا یصلح للاحتجاج[یعنی کوفہ والوں کے مسلک (حنفیہ)کے ثبوت میں مرفوع حدیث کوئی نہیں آئی ہے سوائے ابو موسٰیؓ کی ایک روایت کے جوحجت کے قابل نہیں ۸؎۔صحیح احادیث جو اس مسلہ میں وارد ہوئی ہیں اُن میں نمازِ عیدین کے لئے بارہ تکبیریں ملتی ہیں اور امام شوکانیؒ نے نیل الاوطار میں جودس اقوال درج کئے ہیں ان میں پہلے اسی قول کو جگہ دی ہے۔چنانچہ عمروبن عوف مذنیؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ؐ نے نمازِ عیدین میں ایسا کیا کہ پہلی رکعت میں قراء ت سے قبل سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قرا ء ت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔یہ حدیث صحیح ترمذی ]442[ابن ماجہ]1279[ابن خزیمہ]1438[وغیرہ میں آئی ہے۔ عمران ایوب لاہوری لکھتے ہیں کہ ”اگرچہ اس حدیث کی سند میں کثیر بن عبداللہ راوی ضعیف ہے لیکن شوہد کی وجہ سے قوی اور مضبوط ہوجاتی ہے“۔اور اس حدیث کے بارے میں امام شوکانیؒ نے امام بخاریؒ سے سوال کیاتو امام بخاریؒ نے کہا کہ اس مسلہ سے متعلق اس حدیث سے زیادہ کوئی حدیث صحیح نہیں۔مختصر یہ کہ اس مسلہ میں راجح یہی ہے کہ نماز عیدین میں بارہ زائد تکبیریں کہیں جایئنگی۔نمازعیدین کے حوالے سے ایک اہم مسلہ عورتوں کا عیدگاہ جانے کابھی ہے‘بہت سے لوگ اس میں قباحت محسوس کرتے ہیں کہ عورتوں کو عید گاہ جانے دیا جائے۔لیکن آپ کو بتادوں کہ اللہ کے رسولؐ نے اس بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے یہاں تک آپ ؐ نے حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ لے جانے کا حکم دیا ہے‘جیسا کہ ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم کیا گیا تھا کہ ہم پردہ والیوں کو عید گاہ کے لئے نکالیں‘اسی طرح کی ایک روایت حفصہؓ سے بھی مروی ہے جس میں اس بات کا اضافہ ہے کہ پردہ والی عورتیں ضرور جائیں اور حائضہ نماز کی جگہ سے علحیدہ رہیں (یعنی نماز نہ پڑھیں‘البتہ دعا میں شریک ہوں)]بخاری/9749۔
حواشی
۱؎ مصباح اللغات
۲؎ شرح کتاب التوحیدازعبداللہ ناصر رحمانی/309
۳؎ غنیۃ الطالبین
۴؎ شرح کتاب التوحید از عبداللہ ناصر رحمانی
۵؎ الفقہ الاسلامی/فتح البیان/احکام القراٰن لابن العربی
۶؎ سلسلہ فقہ الحدیث
۷؎ صحیح بخاری حدیث نمبر968سے پہلے
۸؎ شرح بخاری از داؤد رازؒ/جلد2/119