ریحانہ کوثر رشی
پونچھ تحصیل منڈی ویلیج فتح پور
[email protected]
بچپن کا زمانہ ایک نایاب اور انمول تحفہ ہے جس کے کھو جانے کا زندگی بھر افسوس رہتا ہے بچپن خوبصورت یادوں ، معصوم شرارتوں اور بے فکری کی زندگی کا دور ہوتا ہے۔ بچپن دادا دادی کی گود سے دیو مالائی کہانیاں سننے اور آنگن میں آنے والی تیتلیوں کا پیچھے کرتے گزر جاتا ہے۔ والدین کے چہروں پر بچوں کی معصوم شرارتیں مسکرا ہٹ باعث بنتی ہیں ۔ کہنے کو بچپن کا لفظ صرف چار حروف پر مشتمل ہے لیکن حقیقت میں ایک ایسا سنہری دور ہے جو اپنے اندر دلکش اور دلرُبا یادیں لئے ہوئے ہوتا ہے۔
ایسی جنت جس میں بچپن کا ایک لمحہ دلرُبا معصوم اداؤں ، ندانیوں اور اتھکلیوں میں گزر جاتا ہے ۔ میں اپنے بچپن کو یاد کرتی ہوں تو مجھے آج بھی اپنے بہن بھائیوں سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑ ے اور کا چند لمحات کے بعد خوش گپیوں کا نے تھمنے والا سلسلہ یاد آ جاتا ہے ۔ اسکول کے ابتدائی دیں جب ماں ہوم ورک کے لئے ساری شام ہمارے ناز نکھر ے اُٹھانے میں گزار دیتی تھی شام کو والد صاحب ہماری پسند کے پھل اور کھلونے لئے کر آتے تو میں کھلونوں کو گلی کے دوستوں کو دکھانے کے لیے بیتاب رہتی تھی ۔ اب اکثر تنہائی میں مجھے میرا بچپن بے اختیار یاد آنے لگتا ہ دل چاہتا ہے کے ابھی اور اسی وقت کسی نہ کسی طرح اپنے حسین بچپن میں پہنچ جاؤں بقول شاعر
شب ہائے عیش کا وہ زمانہ کدھر گیا
وہ دن کہاں گئے وہ زمانہ کدھر گیا
میری طرح ہر بچے کا بچپن موج مستی کا زمانہ ہوتا ہے نہ کسی قسم کی کوئی ذمےداری اور نہ ہی کوئی ٹینشن صبح کو اسکول جانا ، کلاس میں سہیلیوں کے ساتھ شرارتیں ، دوپہر کو اسکول سے واپسی ، شام کو گلی میں سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا اور رات کو ٹیلی ویژن پر ڈرامے دیکھنا ٹیوی دیکھتے دیکھتے سو جانا صبح کو ماں کی آواز سن کر جاگنا ۔ آج وہ زمانہ ایک سہانا خواب لگتا ہے بچپن کی حسین یادیں تا عمر انسان کے دل و دماغ کے خانوں میں جگمگاتی رہتی ہیں ۔
وہ اینٹوں کی وکٹیں کو ٹوٹا سے بلا و گلیوں کی رونقیں وہ اپنا محلہ سب سے زیادہ مزہ تو اس وقت آتا تھا جب سردیوں کی چھٹیوں میں تمام کزن نانی کے گھر میں جمع ہوتے دن رات کھیل كود میں مصروف رہتے ۔ بارشوں میں نہانا اور کاغذ کی کشتیوں کو پانی میں چلانا ، کچی مٹی کے گھر بنانا ، نانی کے ہاتھوں کے گرما گرم پرانٹھے اور نانا ابو کا سب کو کلفیاں کھیلنا آن بھی بہت یاد آتا ہے ۔ گھر کے صحن میں ڈنہ ڈال کر پرندوں کو پکڑنا ، کھیتوں سے جا کر تازہ سبزیاں لانا آج بھی یاد آتا ہے ۔ لیکن وہ زمانہ اب کسی بھی قیمت پر واپس آنے والا نہیں ہے۔
بچپن میں معصومیت کا یہ حال تھا کے پیسوں سے جیب خالی ہوتی تھی لیکن دل محبت سے بھرا ہوتا تھا مل بانٹ کر کھانے کا رواج تھا ۔ دوست اور بھائی بہن میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا ۔ حسد ، لالچ و دشمنی کس پرندے کا نام ہے معلوم نہ تھا ۔ ایسا فرشتوں جیسا بچپن تھا نہ کوئی دکھلاوا نہ خود نمائی نہ جا ه و جلال کا شوق تھا نہ کوئی دولت اور نہ حکمرانی کے خواب تھی تو بس بے فکری کی معصومیت تھی.
کاش میرا بچپن لوٹ آئے یہ ہر انسان کے دل کی آواز ہے کیوں کے ہر انسان اپنے حسین بچپن کے گزر جانے کے بعد کا دخ لئے ہوے ه ۔ لیکن قانون خداوندی ہے کے گیا وقت پھر واپس نہیں آتا ۔ اب ہمیں بچپن کی یادوں کے سہارے ہے زندہ رہنا ہے۔
میرا مچاؤ ہی مجھے یاد دلانے آئے
پھر ہتھیلی پے کوئی نام لکھانے آئے
لوٹ لے آ کے میری صبح کی میٹھی نیندیں
میں کہاں کہتی ہوں وہ مجھ کو جگانے آئے
میرے آنگن میں نہ جگنو ہے نہ تتلی نہ گلاب
کوئی آئے بھی تو اب کس کے بہانے آئے
دیر تک ٹھہری رہی پلکوں پہ یادوں کی برات
نیند آئی تو کئی خواب سہانے آئے
یہ تھی بچپن کی ایک چھوٹی سی کہانی میں نے اپنا پورے بچپن کی یادیں تازہ کر دی کے میرے بچپن کا وقت کس طرح گزرا کن کن لمحات میں کیا کچھ کیا سب بیان کر دیا ۔