تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
رابطہ نمبر:6005465614
میرے کردار میں مضمر ہے تمہارا کردار
دیکھ کر کیوں مری تصویر خفا ہو تم لوگ
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
وادی کشمیر ماضی قریب میں اپنی ثقافت، اپنی انفرادیت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور و مقبول تھی۔ سرزمین کشمیر کو اولیاء و صالحین کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ بڑے بڑے سادات یہاں آکر اسلام کی خدمت کرچکے ہیں۔ ہماری نصبت ایسے اولیاء کاملین سے ہے جنہوں نے اپنے علم و عمل کی وجہ سے پورے عالم پر راج کیا ہے۔ یہاں کی دھرتی خلوص، شرم و حیا، عظمت کردار، تحفظ عفت و عصمت جیسے اعلیٰ صفات سے متصف تھی۔ لیکن وقت نے کروٹ بدلی۔۔۔۔ اب یہی ارض کشمیر ہے جہاں ایک طرف سے خون کی ندیاں بہتی ہیں اور دوسری طرف عصمت فروشی کے مراکز گرم ہے۔ اب یہی بزرگوں کی سرزمین ہے جس پر ایک طرف سے معصوم کلیوں کو زیر زمین دفن کردیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی قوم کے شباب اپنے کردار کو سربازار نیلام کررہے ہیں۔آۓ روز ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں جن کو سننا بھی اہل شعور کے لئے گراں گزرتا ہے۔ جمعہ رات کے دن ایسا ایک واقعہ ٹینگ پورہ سرینگر میں پیش آیا جس میں ہماری بہنوں کو، ملت کی بہنوں کو، مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھنی والی بیٹیوں کو رنگے ہاتھوں جسم فروشی کا سودا کرتے ہوئے پکڑا گیا۔یہ سانحہ ہمارے لئے تھپڑ ہے۔ یہ صرف ایک جگہ کی بات نہیں بلکہ حالات اس حقیقت کو واضح کررہے ہیں کہ یہاں گھر گھر، گلی گلی ایسے انجمن سجے ہوئے ہیں۔ اور اس قوم کا مستقبل ان نجس اور غلیظ مراکز کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ افسوس اس وقت ہوا جب یہ بات بھی سامنے آئی کہ مجرموں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کا تعلق جنوبی کشمیر سے ہے۔ جہاں ہر روز ملت کی مائیں اپنے لخت جگروں کو قبرستان کے حوالے کررہی ہیں۔
ان جیسے قبیح افعال کا دفاع کوئی دیوث اور بے غیرت ہی کرسکتا ہے۔ ضلع سرینگر کی پولیس کو چاہیے کہ ان مجرموں کو ایسی سزا دی جائے جو قوم کے لئے نمونہ عبرت بنے۔ہم کسی پر تنقید نہیں کرسکتے۔ پوری قوم ایک ہی کشتی میں سوار ہے۔ہماری دینداری فقط تحریروں اور تقریروں تک ہی مقید ہے۔سابقہ کچھ سالوں سے وادی میں لوگوں کے پاس پیسہ حد سے زیادہ آیا۔ اگرچہ یہاں محنتی اور باقوت افراد بھی موجود ہیں جو حلال ذرائع سے اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں لیکن اکثریت کا حال یہ ہے۔۔۔۔ یا تو یہ دولت منشیات کے کاروبار سے آئی، یا پھر یہ دولت سودی کاروبار سے وجود میں آئی، یا پھر یہ دولت خون کا سودا کرنے سے حاصل کی گئی۔ حرام دولت کبھی بھی راہ حق میں خرچ نہیں ہوتی۔ ثانیاً وادی کے لوگ بھی اب دھیرے دھیرے مادہ پرست (materialistic) بن رہے ہیں۔ دن بھی پیسہ، رات بھی پیسہ۔۔۔۔ اس دوڑ دھوپ میں نکاح جیسی عظیم سنت کو نظر انداز کردیا گیا۔ نتیجہ یہی نکلے گا کہ ملت کے شباب جنسی تسکین کے لئے حرام راہوں پر چل پڑیں گے۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح تربیت کا فقدان بھی اپنے عروج پر ہے۔۔۔۔عریاں لباس پہننے کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ پردہ کرنے کو backwardness سمجھا جاتا ہے۔حالات یہاں پہنچ چکے ہیں کہ یہاں اب بیٹی اپنے باپ سے محفوظ نہیں، بہن اپنے بھائی سے محفوظ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
وقت رہتے ہمیں اپنے نفوس پر، اپنے عیال پر، اپنی بستی پر شرعی نظام نافذ کرنا ہوگا۔ورنہ مستقبل قریب میں ہمارا حال قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط جیسا ہوگا۔والدین اپنی ذمہ داریوں سے مبرا نہ ہو جائیں، علماء، مبلغین اپنے فرائض کے تئیں توجہ دیں، فقط نعتیں پڑھنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ تنقید کرنا آسان ہے لیکن اب ہمیں علاج پیش کرنا ہوگا۔وقت بڑا ہی نازک ہے، دشمن بھی شراب کے اڑوں کو مزین کررہا ہے۔ اس قوم کے ازلی دشمن نوجوان ملت کو ہر ممکن کوشش سے راہ حق سے گمراہ کرانا چاہتے ہیں، ملت کے غیور نوجوانوں کو خود بھی اپنی سیرت کو تعمیر کرنا ہے۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں