تحریر: گلشن رشید لون
ریسرچ اسکالر، شعئبہ عربی
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
خطبات ادب کا ایک فن ہے جو قدیم زمانے سے مشہور ہے۔ او ر اس سلسلے میں اس کی بہت سی تعریفیں ہیں لیکن ان میں سے ایک قدمی ترین اور سب سے پہلی ارسطو کی تعریف تھی۔ جس نے خطابت کو ایسی طاقت سے تعبیر کیا جس میں ہر طرح کے معاملات میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ راضی کرنا شامل ہے۔ خطابت کی ایک انتہائی جامع اور مکمل تعریف یہ ہے کہ ا عوام کو متأثر کرنے کے لئے خطاب کرنے کا فن ہے جس میں بنیادی طور پر سننے والوں کے ساتھ جو کچھ کہا جاتا ہے اسے قائل کرنے اور ان کو منانے کے لئے زبانی طور پر بولنے پر مشتمل ہوتا ہے۔
خطابت ان فنکارانہ نثر کی ایک قسم ہے جو عربی ادب میں عام طور پر اور خاص طور پر اسلام سے پہلے (۳۲-۲۲۶)کے ادب میں مشہور ہوئی کیونکہ خطبات اسلام سے پہلے عہد میں کئی معاملات کو نبھاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کے دور میں بہت ساری غیر اخلاقی حرکتیں پائی جاتی تھیں۔ جیسے لوٹ مار، ڈکیتی، ظلم وستم، قتل و غارت گری اور قبائلی جنونیت کے ذریعہ پیدا ہونے والی دیگر حرکتیں۔
خطابت کے پھلنے پھولنے میں قبائلی اضطرابوں نے ایک اہم کردار ادا کیاہے۔ قبل از اسلامی عہد میں عربوں کے ہر قبیلہ کی پاس ایک زبان موجود تھی جو ان کا دفاع کرتی تھی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان کے اثرات تلوار کے اثر سے زیادہ شدید ہیں۔ اس لئے بہت ساری خوبی کے ایسے شعبے تھے جن کے ذریعہ اسلام سے پہلے خطابت کا فن فروغ پایا۔ صحرا اور گھڑ سواری کی زندگی عربوں کے لئے ہمیشہ خطرے کا باعث تھی۔ تو قبائلی اضطراب نے بھی خطابت کو پھلنے پھولنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ تو اسلام سے پہلے کے عہد کے عرب ایک ان پڑھ قوم تھی جو نہ تو پڑھ سکتی تھی اور نہ ہی لکھ سکتی تھی۔ لیکن ان کی فصاحت سلیقہ سے حاصل کی گئی تھی۔ جس نے حسی محرکات کے ذریعہ لبوں سے بیان کی روانی، الفاظ کی مٹھاس کے ساتھ اظہار کے معیار کے لئے دباؤ ڈالتا تھا۔تو دوسری طرف عہد اسلام سے پہلے سوق عکاظ کا مشہور بازار تھا جس نے خطابت کی ترقی پر بہت اثر ڈالا جہاں دور دور سے شاعر، نعت گو، مصنف اور خطباء آتے تھے اور زیارت کے وقت اس میں لوگوں کا سب سے زیادہ مجمع ہوتا تھا جو اچھے مصنفین، شاعر اور خطباء کو ان کی حیثیت کی وجہ سے فوقیت دیتے تھے۔
اسلام سے پہلے عربوں کے لئے خطبہ ایک معاشرتی ضرورت تھی جو باقی ادوار سے متعدد خصوصیات سے ممتاز تھیں۔ لیکن عرب حاضر دور کے اعتبار سے ادب کی اہمیت کو نہیں جانتے تھے لیکن اس زمانے مین اسکی حیثت اور اقسام تھیں۔ اور اس قسم کے مواقع اور مقاصد کی کثیر تعداد سے ضرب تھی جس کے لئے خطبہ دیا گیاتھا۔ اور خطبہ کی سب سے اہم اقسام تھیں۔
واعظ: ان خطبے میں بہت سی نصیحتیں اور فیصلے دئیے جاتے تھے جو نیک اخلاق، عمدہ خوبیوں کے ساتھ عزم کی تاکید کرتے تھے جس کے ساتھ معاشرہ عروج پر تھا۔ تو فخریہ خطبے میں مبلغ اپنے قبیلے کی خوبیوں اورکارناموں کو دھرایا کرتے تھے۔ جو ان کے ساتھ پوری تاریخ میں رونما ہوتی تھی۔ جو ان کی زندگی میں ایک مثال قائم کرتے تھے۔ اور نکاح خطبہ میں معاشرتی پہلو میں عرب قوم کی پیشرفت کے سر براہی نمائندگی کی، کیونکہ یہ انسانی مواصلات کی ایک خاص اور اہم قسم کی نمائندگی کرتا تھا۔ تو تعزیتی خطبہ میں قبیلے کے کسی فرد کی وفات پر مبلغ مرحوم کے اہل خانہ سے دلی تعزیت پیش کرتا تھا اور ان سے صبر کی تلقین کرتا تھا۔
قبل از اسلام کے خطبات اس زمانے میں تمام مختلف حالات پر قابو پانے کی کوشش کرتے تھے اور قبیلے کے اندر موجود تمام لوگوں تک پہنچائے جانے والے ایک واضح اور اثر انگیز بیان اور خطبے میں ان کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
خطبہ اسلام سے قبل کے عہد میں ایک انوکھی خصوصیات کی حامل تھی۔ جس نے خطیب کو ممتاز کیا، کیونکہ خطیب اپنے خطبے کے ذریعہ لوگوں اور قبائل کو متأثر کرتا تھا اور انھیں دنیا میں مشہور بنا دیتا تھا۔اس لئے خطابت کو مؤثر اور دلکش بنانے کے لئے اور لوگوں کی توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش کرنے کے لئے خطبات میں مشہور محاورے استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔جو حکمت یا کہاوتیں تبلیغ کے ذریعہ خطبے میں دیئے جاتے تھے۔
قبل از اسلام میں مبلغین کا ایک بہت بڑا گروہ تھا جو تقریر کرنے اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اپنی اعلی صلاحیتوں کے لئے قبل از اسلام میں مشہور تھے۔ ان میں سے ایک تھے قس بن ساعدہ الإیادی، جنہوں نے سب سے پہلے”اما بعد“، البینۃ علی من ادعی، والیمین علی من انکر“، من فلان إلی فلان“ اپنے خطبے میں استعمال کیا۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ اونچی جگہ کھڑے ہو کر خطبہ دینے اور تلوار کا سہارا لینے کی ابتداء انھیں سے ہوئی۔”سوق عکاظ“ میں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تقریر سنی تو پسند فرمائی۔ روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا ”خدا قس پر رحم فرمائے، مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن وہ تنہا ایک قوم کی جگہ اٹھایا جائے گا“۔
لیکن جب ۰۴ ھجری میں اسلامی دور آیا تو یہ عہد تجدید عہد کا دور تھا۔ جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں اور تمام فنون کو بھی متأثر کیا۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں خطابت کو تقویت حاصل ہوئی۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خطابت کا ایک مکتب تشکیل کیا جس نے دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچایا اور اس دور میں خطابت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اور اسلامی خطبات کی ترقی میں بہت سے عوامل کا تعاون تھا۔ سب سے پہلے لوگوں کو خطبات کے ذریعہ اسلام کی دعوت دی گئی۔ اور پھر لوگوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس کے احکام کو واضح کرنا اور اسکے مکمل معنی اور تفصیل کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کرنا ضروری تھا۔ اسلام نے ایسے نئے تصورات پیدا کئے جن کا انسان کو پہلے سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ لہذا اس نے زبان کی تجدید اسلامی انداز میں کیا۔ جو مذہبی خطبات میں ظاہر ہوتا ہے۔ جہاں اسلام نے زبان کی تربیت کر کے ایک ایسے نئے انداز میں سامنے لایا کہ لوگ پہلے کی نسبت زیادہ اس کی طرف راغب ہوئے۔ اور اسلام نے خطابت کے مقاصد کو متحد کیا اور ایک ایسے موضوع کے ارد گردگھومتا ہے جس پر تبادلہ خیال کیا جا سکے اور پھر قرآن کے انکشاف نے اس کی معجزاتی کی وجہ سے بیانات کی فصاحت، وسیع معانی اور اس کی وضاحت سے مستفید ہوتے تو اس نے زبان کو اور اس کے طریقوں کو بہتر بنایا اور تأثرات کو آسان بنایا اور الفاظ کے لئے نئے دروازے کھول دیئے اور پھر حدیث نے قرآن کی تفصیل سے اور مکمل وضاحت کی۔
زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق تمام عرب تقریر کرتے وقت عمامہ باندھتے، عصا ہاتھ میں لیتے اور اونچی جگہ کھڑے ہوکر خطباء دیتے۔
اسلامی عہد کے سب سے مشہور مبلغین:
– نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
– خلفاء راشدین
– مصعب بن زبیر
– واصل بن عطاء
عربی ادب کے مؤرخین تقریبا متفقہ طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ خطابت اموی دور (۰۴ھ-۲۳۱ھ) میں اس قدر عروج پر پہنچا جتنا کسی اور دور میں ترقی نہیں پا سکا۔کیونکہ اس دور میں خطابت کی وجوہات کی موجودگی نے خطابت کو اور بھی پھلنے پھولنے کے مواقع میسر کرائے۔ جس کی وجہ سے فصیح و بلیغ مقررین وجود میں آئے۔جس میں سب سے نمایاں ریاست کی علیحدگی کے بعد سے ہی فرقہ وارانہ اختلافات اور سیاسی جماعتوں کا وجود تھا۔اورایسی فضا میں خطابت کو فروغ دیا جاتا تھا اور ہر فریق یا گروہ دوسروں کو اپنی طرف راغب کرنے اور اپنے مخالفین کو بے دخل کرنے کے لئے اس پر ایک زور دارہتھیار کی طرح استعمال کرتا تھا۔
اموی دور ثقافت اور ادبی ذوق سے بھرا ہوا دور تھا۔ کیونکہ ان کے اظہار خیالات نے مختلف اور متنوع طریقوں کواپنایا، جن میں خطابت بھی شامل تھی۔ جس نے تقریروں کی مثالوں سے نثر کو بلند کرنے میں نمایاں اثر دیا۔
اور جب اموی دور کی ابتداء ہوئی تو اموی مبلغین نے اپنے خطبات کو دلکش بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ لہذا اس نظر ثانی کے نتیجے میں اموی دور کی تقاریر ائیڈیوں کے ساتھ مربوط ہوئیں۔ یہ خصوصیات زیاد بن ابیہ کے خطبہ میں واضح طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔
ابتدائی اسلام کے خطبات میں جو خصوصیات پائی جاتی تھیں وہ اموی خطبات میں بھی باقی رہیں۔ اور اس میں ”
خدا کی حمد و ثناء، اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے ساتھ شروع ہوتے تھے اور قرآن مجید کے ذریعہ بہت سے مبلغین اپنے خطبات میں اثر انداز ہوتے تھے۔ لہذا قرآن مجید سے بہت ساری آیات نقل کی گئیں اور انھیں خطبے سے مناسب جگہوں پر رکھا گیا، اور بہت سے واعظوں میں اشعار کا ایک حوالہ ملتا تھا یا اس کے فقرے اور معانی سے ایک اقتباس ہوتا تھا۔
اموی دور کے سب سے مشہور مبلغین میں سب سے نمایاں تقریر کرنے والے جو اپنی فصاحت کی وجہ سے مشہور تھے ان میں سے ہیں:
– طارق بن زیاد
– زیاد بن ابیہ (متوفی۳۵ھ)
-حجاج بن یوسف الثقفی(۱۴ – ۵۹ھ)
لیکن جب حکومت (۲۳۱ھ -۶۵۶ھ) پوری طرح سے بنو عباس کے ہاتھ میں آگئی اور موالیوں نے لشکر اور سیاست کے انتظام کو سنبھالا تو خطابت کے فن کی اہمیت باقی نہ رہنے کی وجہ سے یہ فن زوال پذیر ہونے لگی توخطابت کی جگہ مکاتب اور شاہی فرامین نے لے لی اور خطبات صرف خاص مواقع جیسے عیدین، نکاح اور جمعہ وغیرہ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ لیکن ابتداء میں خلفاء ہی تقریریں اور نمازیں پڑھاتے تھے۔ لیکن پھرخطابت اور امامت کا منصب علماء کے سپرد کر دیا گیا۔اور خطیب بغدادی اور خطیب تبریزی جیسے خطیب منظر عام پر آئے۔
مصنف سے [email protected] یا 9596434034 پے رابطہ کیا جاسکتا ہے.