الف عاجز اعجاز
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کّروبیاں
انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔ اُسے تمام جانداروں سے افضل اور برتر مانا گیا ہے۔ یہ درجہ اور رتبہ اُسے صرف اس حالت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے غم میں شریک ہو، دوسروں کے لئے دل میں درد رکھتا ہو، دوسروں سے محبت کا سلوک روا رکھتا ہو اور یہ خدمت اور ایثار کا جزبہ ہی انسان کو دوسرے جانداروں سے افضل بناتا ہے۔ الغرض انسان کہلانے کا وہی شخص مستحق ہوتا ہے جو دوسروں کے لئے جۓ اور اگر انسان کسی مظلوم یا دکھی کی مدد نہیں کرتا تو وہ جانور ہے بلکہ اس سے بھی گیا گزرا۔
لیکن آج جہاں بھی نظر ڈالے انسانیت دم توڑ چکی ہے۔ آج کے انسان کو اگر کسی بات سے غرض ہے تو صرف اپنے آپ سے، اس کے لئے اگر کوئی چیز معنی رکھتی ہے تو صرف اُس کا اپنا وجود۔ آج کا انسان اگر کسی کی مدد بھی کرے تو اس میں بھی وہ پہلے اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ آج کا نسان اتنا خود غرض، اتنا بے حس ہوچکا ہے کہ اس کے سامنے کوئی اپنی جان بھی دیں دے تو بھی اس کا دل نہیں پگلتا۔
زمانہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے، مل جل کر ساتھ رہتے تھے، ایک دوسرے کی قدر کرتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے، دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھتے تھے۔ ہمسائیوں دوستوں، رشتہ داروں میں کسی کے گھر دو وقت کی روٹی نہ ہوتی، یا کوئی سفید پوش ہوتا تو اس کے گھر راشن کے انبار لگائے جاتے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی۔ بڑوں اور بزرگوں کی عزت کی جاتی تھی لیکن پھر ہم نے ترقی کر لی اور انسان ماڈرن بن گیا۔ بڑے بزرگ بوجھ بن گئے اور غریب لوگ کوڑا کرکٹ اور جو کمی رہ گئی تھی وہ سمارٹ فون نے پوری کر دی۔ آج کا انسان اگر کسی غریب کو ایک روٹی بھی دے دیتا یے تو پہلے اُس کی تصویر لے کر شوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی تعریفیں کریں اور اس کی نیک نامی ہو۔ لوگوں کی ان حرکات کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ غریب لوگ چاہے فاقے سے مر ہی کیوں نا جائے لیکن وہ کسی سے تذکرہ نہیں کر پاتے کیونکہ انہیں اپنی عزت نیلام ہونے کا ڈر ہوتا ہے، انہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ مدد ایک انسان سے لیں گے لیکن اس کا نظارہ پوری دنیا دیکھیں گی۔ اس دکھاوے اور ظاہری نیک نامی کی لالچ نے انسان کو اتنا اندھا کر دیا کہ وہ انسانیت کے معیار سے ہی گر گیا ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے پہل اگر کسی کو کوئی مشکل در پیش آتی تو سب لوگ مل جل کر اُس کی مشکل حل کر دیتے تھے لیکن جب سے یہ سمارٹ فون آئے ہیں تب سے لوگ ایک دوسرے کی مشکل میں اگر کچھ کر پاتے ہیں تو یہ کہ مصیبت زدہ کی فلم بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتے ہیں کچھ لائکس کی خاطر اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ انہوں نے انسانیت کا حق ادا کر دیا۔ اس کی مثال ہمارے سامنے موجود ہیں پچھلے کچھ مہینوں سے وادی میں خودکشی ایک عام چیز بن گئی ہے۔ آئیں روز ہمیں سوشل میڈیا پر خودکشی کرنے والوں کی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن میرا بس ایک ہی سوال ہے خدارا یہ بتائیں کہ کسی کی موت کا منظر کمیرے میں قید کرنا اُس کی زندگی بچانے سے زیادہ ضروری ہے کیا؟ کیا سوشل میڈیا کی کچھ لائکس انسانی جان سے زیادہ قیمتی ہوسکتی ہے۔
آپ سب نے دیکھا ہوگا کہ کچھ دن پہلے ہی اہربل میں عارف نامی ایک دیوانے نے اپنی زندگی لہروں کے حوالے کر لی۔ وہ لڑکا ایک دیوانہ تھا، اُس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اور دیوانے کو کیا پتہ موت اور زندگی کیا ہوتی ہے۔ وہ تو بس جو کرتا ہے لوگوں کی توجہ پانے کے لیے کرتا ہے، اس کا بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ لوگ اس کو سراہے اور اسی مقصد کی خاطر وہ عجیب غریب حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ ایک دیوانہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اہربل نالے پر چھلانگ لگانے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور کوئی اس کو بچانے یا سمجھانے نہیں جاتا بلکہ سب اس کی ویڈیو بنانے لگتے ہیں اور جیسے ہی وہ چھلانگ لگاتا ہے تو لوگ واویلا مچا دیتے ہیں۔ بھلا یہ کہاں کی انسانیت ہے۔ ایک دیوانہ خودکشی کیوں کریں گا۔ میری نظر میں یہ خودکشی نہیں یہ قتل ہے، انسانیت کا قتل، انسانی ضمیر کا قتل، آج کا انسان اتنا بے ضمیر ہوچکا ہے کہ ان کے سامنے ایک دیوانہ موت کا کھیل کھیلنے کے لئے کھڑا ہو جاتا اور وہ اُس کو سمجھانے کے بجائے اُس کی ویڈیو بنانے لگتے ہیں محض کچھ شوشل لائکس حاصل کرنے کی خاطر ایک انسانی جان گنوا دیتے ہیں۔
معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ انسان اور حیوان میں اب زیادہ فرق نہیں رہا ہے۔
انسانیت کا جنازہ ہے، فرشتے بھی ہے نالاں
مخلوقِ خدا حیراں ہے پر انسان نہ پشیماں