تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
رابطہ نمبر:6005465614
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کافی وائرل ہوگئی جس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اہربل کلغام کے مقام پر ایک نوجوان بہتے پانی میں اپنی جان کی بازی لگا رہا ہے۔۔۔۔ معاملہ خودکشی کا ہے یا قتل کا، واضح نہیں ہورہا کیونکہ ویڈیو گرافی کرنے والے شخص کے الفاظ کچھ اور ہی عکاسی کر رہے تھے۔
بہرحال یہ ذمہ داری ضلع کی پولیس کی ہے کہ وہ اس معاملے کی تفتیش باریک بینی سے کریں۔ کیونکہ افواہ یہ بھی ہے کہ کچھ مخصوص افراد نے اس نوجوان کو پانی میں چھلانگ لگانے پر اکسایا،مجبور کر دیا۔ تو گویا یہ ایک واضح قتل بھی ہوسکتا ہے۔یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ نوجوان کی ذہنی قوت سالم نہیں تھی۔
لیکن حقیقت سے پردہ اٹھانا کلغام پولیس کا کام ہے۔ لیکن کچھ الفاظ نے میری نیند ہی اڑا دی۔ اہربل میں جب یہ نوجوان بہتے پانی میں غرق ہوا، وہ زندہ تھا۔۔ جب ویڈیو گرافی کی جارہی تھی۔ لوگ عینی اسے بچا بھی سکتے تھے۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اہربل کا بہتا پانی کافی بھیانک ہے جس کی لپیٹ سے اسے بچانا ناممکن تھا۔ یہ اشکال فقط جہالت ہے۔
اہربل میں روز ہزاروں کی تعداد میں سیاح سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں، کیا ان میں سے سو افراد بھی باضمیر نہیں تھے۔۔۔؟ویڈیو گرافی کرنے والا کہہ رہا ہے، "ابھی زندہ ہے۔۔۔ مررہا ہے۔۔۔ مرگیا بے چارہ”.افسوس صد افسوس۔ پورا اہربل نوجوان کی موت پر تماشائی بن کے رہا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگ مزا لے رہے تھے اس کی موت کا۔جب اتنے سے بھی جی نہ بھرا، پھر یہی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی تاکہ نوجوان کے والدین ہر پل مریں، بار بار مریں۔
میں حیران ہوں! آخر حکومت وقت کہاں؟ آخر ہماری پولیس کہاں؟ اس ویڈیو کو اس طرح وائرل کرنا، کیا قانون کے خلاف نہیں؟ قانون کو یک طرف رکھ کر، یہ ایک اخلاقی و سماجی جرم بھی ہے۔ایک بات تو عیاں ہے کہ اہل کشمیر دھیرے دھیرے اپنی وراثت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ کہاں گئی وہ ہمدردی؟ کہاں گئی وہ سخاوت؟ جس کی مثالیں دنیا بھر میں دی جاتی ہیں۔
حسرت ہے مجھے اپنے آپ پر، اپنی قوم پر۔۔۔۔؟ یہاں تو کتوں کی حفاظت کے لئے تدابیر عمل میں لائی جاتی ہیں، انسان کب سے کتوں سے بھی سستے ہونے لگے؟ کیا کسی کے گھر کا چراغ اتنا سستا ہے کہ کسی نے اس چراغ کی روشنی باقی رکھنے کی پہل نہ کی؟ یہ سؤال ہے مجھے اپنی قوم سے۔۔۔ یہ سؤال ہے ارباب اقتدار سے۔۔۔