از قلم : منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر بارہمولہ
رابط: 6006952656
اگرچہ علامہ اقبال رح کے حوالے کثیر تعداد میں کتابیں تصنیف ہوئی ہے لیکن کئی کتابوں کا مطالعہ کرکے انسان یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کم صفحوں پر یہ کتابیں ایک وسیع مخزن سے کم نہیں ہے. انہی کتابوں میں” علامہ اقبال رح چند افکار و نظریات” ایک خوبصورت نام ہے جس کا مصنف سوپور سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان قلمکار محترم عمران بن رشید ہے.
عمران بن رشید کی تصینف کا مطالعہ کرکے اس زندہ دل نوجوان کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوجوان انتہائی پختہ عقل, دوربین اور تجربہ کار ہے. مصنف نے انتہائی محنت سے اقبالیات سے وہ پیغامات سماج کے ہر فرد کے لیے ترتیب دئے ہیں جو پیغامات موجودہ مسائل کی خوب عکاسی کرتے ہیں.
قلمکار نے انتہائی عرق ریزی سے کام کرکے کئی گوشوں پر دلائل سے بات کو ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے. کتاب انتہائی خوبصورت طریقے سے ترتیب دی گئی ہے جس میں گیارہ مضامین پر دلیل کے ساتھ بات کی گئی ہے جن کو پڑھ کر قلمکار کی سنجیدہ نظر کا اعتراف کرنا پڑھتا ہے. قلمکار نے اقبالیات کو قرآن واحادیث کے ترازو میں ڈال کر تحقیقی قلم سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اصل میں اسلام کے پیغامات کاہی ترجمان ہے. قلمکار نے فکر اقبالیات کے آغاز میں ہی موت وحیات پر مدلل بحث کی ہے جس میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر ١٨۵ کل نفس ذائقتہ الموت کا حوالہ دے کر بعد میں فکر اقبال کے فلسفے کو احسن طریقے سے سمجھایا ہے.
سوتے ہیں خاموش آبادی کے ہنگاموں سے دور
مضطرب رکھنی تھی جن کو آرزوئے ناصبور
قبر کی ظلمتوں میں ان آفتابوں کی چمک
جن کی دروازوں پہ رہتا تھا جبیں گستر فلک
بانگ درا
موت وحیات کو چند صفحوں پر قلمکار نے مضبوط تجربے سے وضاحت کی ہے اور اقبالیات کا حوالہ دے کر فکر اقبال کو سمجھانے میں کامیاب ہوا ہے.
موت کو سمجھے ہے غافل اختتام زندگی
ہےیہ شام زندگی صبح دوام زندگی
قلمکار نے قادیانیت پر بھی مدلل بحث کی ہے اور اقبال رح فتنہ قادیانیت پر کیا رائے رکھتے تھے اس پر بھی قلمکار نے چند اوراق پر وضاحت کی ہے. کیسے ڈاکٹر صاحب نے مردود مرزا کا رد کرتے ہوئے امت کو اس باطل عقیدے کے حوالے سے آگاہ کیا.
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
لیکن مجھے پیدا اس دیس میں کیا تونے
جس دیس کے بندے غلامی پہ ہے رضا مند
قرآن کے بارے میں ڈاکٹر اقبال کا عقیدہ کتنا مضبوط تھا اس بارے میں قلمکار نے کئی دلائل سے کام لے کر وضاحت کی ہے. اس بارے میں سید ابولحسن علی ندوی کی کتاب”نقوش اقبال”کا حوالہ دے کر لکھا ہے.
‘اقبال کی زندگی پر یہ کتاب (قرآن) جس قدر اثر انداز ہوئی ہے اتنا نہ وہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے.
قلمکار نے ڈاکٹر اقبال کے اس عقیدے کو علامہ کے بات سے ہی وضاحت کی ہے کہ
فاش گوئم آنچہ درد دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
نوجوانوں کے حوالے سے اقبال کس قدر فکر مند تھا قلمکار نے بڑے تجربے کے ساتھ پیغام کو قلمبند کیا. جہاں پر ڈاکٹر اقبال نوجوانوں کو قوم کی شناخت قرار دیتے ہیں وہی پر موجودہ طرز تعلیم سے بہت زیادہ فکر مند ہے.
خوش تو ہے ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ.لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اس کتاب کا ہر صفحہ باریک بینی اور محنت سے ترتیب دیا گیا ہے اور قلمکار فلسفہ اقبالیات پر کس قدر عبور رکھتاہےیہ کتاب اس بات کی واضح دلیل ہے. اس کتاب میں باقی جن مضامین پر بحث ہوئی ہے ان میں
میرا نور بصیرت عام کردے, ابلیس کی آہ وزاری, تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب, مدرسہ وخانقاہ سے غمناک اقبال, اقبال کا تصور خودی, مرد مومن, کشمیر اقبال کا اصل وطن, علامہ اقبال چند واقعات ان مضامین کو الفاظوں کا ایسا سانچہ دیا گیا کہ عام پڑھنے والوں کے لیے یہ کتاب آسان ہے. کتاب میں کئی باتوں پر کھل کر بات ہوئی ہے اور فکر اقبال کو سمجھانے کی ایک کامیاب کوشش ہوئی ہے. ایک جگہ قلمکار نے موجودہ شعرہ کو مشورہ دیا ہے کہ شاعری کو عشق وعاشقی کے جزبات ابھارنے کے بجائے علامہ اقبال رح کی طرح اشاعت دین کا ذریعہ بنائے. اس بارے میں علامہ اقبال نے خود بھی فرمایا ہے.
ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس
آہ!بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
بہرحال قلمکار عمران بن رشید اقبالیات سمجھنے اور سمجھانے میں کامیاب ہوا ہے اور یہ کتاب ہر مزاج کے پڑھنے والوں کے لیے کارآمد ہے. اللہ قلمکار کو جزائے خیر اور علم وعمل میں برکت عطا کرے.آمین