رخسانہ محمد بٹ
اصلاحِ نفس کے لیۓ ایک آدمی اللّہ والے کی خدمت میں حاضر ہوا اور شیخ کے تجویز کردہ اورادو وظائف کو پابندی کے ساتھ پڑھنے لگا۔ شیخ کے گھر سے ایک خادمہ اس کے لیۓ کھانا لایا کرتی تھی۔ چند دنوں کے بعد وہ اصلاحِ نفس کرنے والا آدمی نفس کے جال میں پھنسنا شروع ہوگیا۔
وہ آہستہ آہستہ خادمہ کے عشق میں مبتلا ہو گیا ۔ جب خادمہ کھانا لے کر آتی… وہ اسے دیکھتا رہتا ۔ خادمہ اللّٰہ والوں کی نوکر تھی۔ اس نے صاف صاف شیخ صاحب کو بتلا دیا کہ حضور آپ کا فلاں مرید میرے عشق میں مبتلا ہو گیا۔ اب اس کو اورادو وظائف سے نفع ہوگا ۔ پہلے اس کا یہ مسئلہ حل کریں ۔ شیخ صاحب یہ سن کر خاموش ہو گئے اور اللّٰہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرنے لگے کہ الٰہی مجھے اس مسئلے کا حل عطا فرما۔
چند دنوں کے بعد شیخ صاحب نے خادمہ کو اسہال کی دوا دی اور ساتھ حکم دیا کہ تجھے جتنے دست آئیں سب کو ایک طشت میں جمع کرتی رہنا….. یہاں تک کہ اس کو بیس دست ہوئے جس سے وہ انتہائی کمزور اور لاغر ہوگئی۔ چہرہ پیلا ہوگیا۔ آنکھیں دھنس گئیں۔ رخسار اندر کو بیٹھ گئے۔ ہیضے کے مریض کی طرح خادمہ کا چہرہ بھی مکروہ سا ہوگیا۔ اور تمام حُسن جاتا رہا۔
شیخ نے خادمہ سے کہا کہ آج اس کا کھانا لے جا اور خود بھی آڑ میں چھپ کر کھڑے ہوگئے۔ اس عاشق مرید نےجیسے ہی خادمہ کو دیکھا۔ کھانا لینے کے بجائے اس کی طرف سے چہرہ پھیرلیا اورکہا کھانا وہاں رکھ دو شیخ فوراً آڑ سے نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ اے بے وقوف آج تُو نے اس خادمہ سے رُخ کیوں پھیر لیا، اس کنیز سے کیا چیز گم ہو گئی جو تیرا عشق آج رُخست ہو گیا۔
پھر شیخ نے حکم دیا کہ وہ پاخانے کا طشت اُٹھالا جب اس نے وہ طشت اس کے سامنے رکھ دیا تو شیخ نے مرید کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ اے بے وقوف اس خادمہ کے جسم سے سوائے اتنی مقدار پاخانہ کے اور کوئی چیز خارج نہیں ہوئی معلوم ہوا کہ تیرا عشق در حقیقت یہی پاخانہ تھا۔ جس کے نکلتے ہی تیرا عشق غائب ہو گیا۔
درسِ حیات: اے لوگو! جس گھنگرو والی زلفِ مشکبار پر آج تم فریفتہ ہو یہی زلف تم کو ایک دن بوڑھے گدھے کی دُم کی طرح بُری معلوم ہو گی۔