فہیم الاسلام
طالب علم شعبہ سیاسیات
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
انسانیت نے ایک ایسا قدیم زمانہ بھی دیکھا ہے جب برائی کرنے سے پہلے انسان ہزار بار سوچتا تھا اور برائی کو کرنے کے لیے دور دور تک اپنے سفر طے کرتا تھا اور اور اپنی تسکین کے لیے سامان مہیا کرتا تھا۔آدم خور اور انسانی جانوں کے شکاری ہمیشہ سے سماج کو اپنے انداز سے دکھ جاتے تھے لیکن انسانی لباس میں رنگے ہوئے ان درندوں نے ہمیشہ سے سماج کو دھوکے میں رکھا۔چاہے ہم مختلف تہذیبوں کی بات کرے خصوصاً عرب کے ابتدائی دور کی بات کریں جہاں پر ایک باپ اپنی بیٹی کو اپنے ننھی سی پری کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے تھے اور اس دنیا میں ان کے جینے کا حق چھین لیتے تھے جو اپنے آپ کو ایک انسان تصور کرتے تھے لیکن اصل حقیقت میں وہ اشرف المخلوقات کے اعزاز سے محروم ہوچکے تھے۔زمانہ آگے بڑا اور اس میں تعلیم کے نور نے قوموں کو منور کیا اور چاروں طرف امن و سلامتی کی لہریں ڈوڑنے لگی ۔اسلام کے ظہور کے بعد ہر کسی کو اپنا حق ملا اور قوم انسانیت کی راہ پر گامزن ہونے لگی، لیکن جوں ہی انسانی دنیا نے ترقی کی راہ پر اپنے قدم جما لیے اس کے ساتھ ہی انسانی دنیا کو سماجی، اقتصادی اور دیگر شعبہ جات پر منفی اثرات کا سامنا بھی کرنا پڑا، جہاں مغربی دنیا آج آزادی کا نعرہ لے کر سڑکوں پر سامنے آ جاتی ہیں جہاں پر وہ اپنے جسم کی فروخت کو آزادی سمجھتیں ہیں جہاں پے مائیں طلاقوں کی دہلیز پہ بیٹھنے کو آزادی سمجھتے ہیں جہاں پر بیٹیاں اپنے جسم کی ننگی فروخت کرنے کو آزاری تصور کرتے ہیں اس نے سماجی حالت کو بہت خراب کر رکھا ہے چاہیے اشیاء کی بات کی جائے یا مغربی دنیا کی بات کی جائے ہمیشہ سے ہر کسی کے حق میں یہ نعرے تب تک صحیح نہیں ہے جب تک وہ آزادی کے تصور کو صحیح سمجھ نہ سکے۔مغرب کا’’ نعرہ آزادی‘‘ وہ آزادی ہے جس کو ساری مہذب دنیا مادر پدر آزادی کہتی ہے۔اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کی جواں سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے اپنے جوڑے چن لیں، حتی کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں تو ماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی نہیں کرسکیں ،اگر یہی تصور آزادی کا ہے تو اس ہزاری سے ایک انسان کی عزت محفوظ نہیں بلکہ ویران ہو جاتی ہے ۔
دور حاضر میں سماجی بے راہ روی نے پوری طریقے سے اپنے جال بچھائے ہے اور یہ بے حیائی ہمارے دروازے پر دستک نہیں بلکہ ہمارے گھروں کے اندر بھی اب داخل ہوچکی ہے انسانی دنیا نے جہاں ترقی کے نام پر انٹرنیٹ اور باقی سہولیات فراہم کی وہی ان کے منفی اثرات بھی آج ہمارے گھروں کے اندر دیکھنے کو ملتے ہیں، ماں باپ اپنے بچوں کو صحیح تربیت نہیں کر پا رہے ہے، والدین اپنی ذمہ داریوں سے عاری ہو رہے ہیں اور بچے اپنی من مانی کے حساب سے اپنی زندگی جینے کا سوچ رہے ہے جس سے سماج میں ایک بہت ہی گہرا اور منفی اثر پڑ رہا ہے سماج بے راہ روی کے راہ پر گامزن ہو رہی ہے ۔کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس میں فحاشی کو عام کر دو۔ ذہین ترین لوگوں کی سر زمین وادی کشمیر کی نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لئے بھی یہی کیاگیا۔ ہماری نوجوان نسل نے تعمیری سوچ اور مثبت سرگرمیوں کو خیر باد کہہ کر تعیشات کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دیگر ترقی پزیر ممالک خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کے لئے دن رات مصروف عمل ہیںوہیں کشمیر ترقی پزیر سے ترقی یافتہ ہونے کی بجائے مسلسل رو بہ زوال ہے۔پستیوں کی جانب تیزی سے بڑھتے اس معاشرے میں کہیں انٹرنیٹ کیفے کے نام پر فحش فلمیں دکھا کر نوجوان نسل کے جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے توکہیں تو آئس کریم پارلرز کے نام پر فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر مخلوط نظام تعلیم نے پوری کر دی ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ میل جول نے بہت سی خرافات کو جنم دیا ہے۔ رسمی بات چیت دھیرے دھیرے لمبی ملاقاتوں اور پھر جنسی تعلق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اور اس طریقے سے آج ہماری وادی کشمیر میں حالات بن چکے ہیں کہ اپنی ماں باپ اپنے بچوں کے نظر نہیں رکھ پاتے ہیں اور بچے کے جسم کی فروخت کرنے پر بھی آمادہ ہو رہے ہیں اور اس سے سماج پر بہت گہرا اثر رہا ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے نوجوان مختلف بیماریوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔والدین پے یہ حق زرور بنتا ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کرے انہیں حق اور ناحق میں فرق سمجھائیں اور انہیں ایک خوشحال سماج کی امید دیں۔بچوں کی تربیت کا تعلق نہ تو حکومت اور نہ ہی سیاست یا لیڈروں سے ہے،بلکہ ہمارے اپنے گھروں سے ہیں۔ ہمارے والدین اور سرپرست اعلیٰ کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں۔ یہ ہماری مائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتی ہیں۔ہر ماں کو چاہیے کہ وہ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے۔ ٹی وی چینلوںپر چلنے والے ڈراموں یا غیر ضروری کاموں میں پڑ کر اپنی ذمہ داری کو نظر انداز مت کریں۔ بچے کیا اور کیوں کررہے ہیں یہ چیک اینڈ بلنس کا سلسلہ رکھنا چاہیے۔ مائیں اپنے بچوں کو ہر لحاظ سے تربیت دیں۔ ان کے خفیہ مسائل کو بھی سمجھیں اور انہیں پیار محبت سے سمجھائیں۔ اپنے بچوں کے خود ہی دوست بنیں، اس سے پہلے کہ وہ آپ پر اعتماد کرنے کے بجائے کسی اجنبی سے دوستی کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا معاشرتی نظام جداگانہ ہے اور ہمارے اقدار مختلف ہے۔ اس لیے با شعور و احساس ذمہ دار شہریوں کو چاہیے کہ وہ سامنے آجائیں اور ان تمام بے حیائی اور بے راہ روی کے غلط کاموں کو روکنے کے لیے اپنا تعاون دے تاکہ وادی کشمیر کو دوبارہ وہی جنت بنائے جو جنت کو چھوڑ کر یہاں پر ہمارے اسلاف چلے گئے ۔اللہ تعالی سے یہی دعا ہے کہ ہمیں اس بے حیائی کے جال میں پھنسنے سے بچائے اور کشمیر میں دوبارہ سے امن و سلامتی کی لہر دوڑائیں ۔