تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614
بجلیوں کی ہنسی اڑانے کو
خود جلاتا ہوں آشیانہ کو
رو رہا ہے اگرچہ دل پھر بھی
مسکراتا ہوں مسکرانے کو
شریعت اسلامیہ میں عقائد کے بعد سب سے زیادہ اہمیت عبادات اور معاملات کی ہے۔عبادات کو ہم دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں، وہ عبادات جو ہمارے اور رب العباد کے درمیان ہیں جنہیں ہم حقوق اللہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور وہ عبادات جن کا تعلق بندوں کے درمیان ہے، یہ عبادات بھی رب ہی کی خاطر انجام دی جاتی ہیں لیکن ان کا تعلق بالواسطہ مخلوق سے ہوتا ہے، انہیں ہم حقوق العباد بھی کہہ سکتے ہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ معاملات اور اخلاقیات کا تعلق اسی دوسرے شعبے سے ہے۔ اخلاقیات کو ہم مزید دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں، اخلاق ممدوحہ اور اخلاق مذمومہ یعنی ممنوع اخلاق۔بندہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اخلاق محمود یعنی اعلیٰ صفات سے متصف ہوتا ہے۔اللہ رب العباد نے عبادات کا بنیادی مقصد یہی قرار دیا کہ معاملات اور اخلاقیات میں سدھار آجاۓ۔شریعت مطہرہ نے واضح کردیا کہ عبادات کے ہوتے ہوئے اگر معاملات اور اخلاقیات میں بگاڑ ہو تو یہ عبادات اسے کوئی نفع نہیں دے سکتی یعنی انسان اپنی محنت سے مستفید نہیں ہوسکتا۔عصر حاضر میں اہل اسلام کے درمیان ایک عظیم مرض جنم حاصل کرچکا ہے اور وہ مرض بد ہے "دھوکہ”.دھوکہ نہ صرف دین اسلام کے نذدیک مذموم ہے بلکہ روۓ ارض پر زندگی حاصل کرنے والا ہر عاقل اسے معیوب سمجھتا ہے۔ یہ مہلک مرض کیوں تیز رفتاری سے پروان چڑھ رہا ہے، وجوہات کا ذکر مختصراً آرہا ہے۔
سب ساغر، شیشے، لعل و گوہر اس بازی میں بَد جاتے ہیں
اُٹھو سب خالی ہاتھوں کو اس رَن سے بلاوے آتے ہیں
حصول منصب
کرسی حاصل کرنے کا نشہ شراب نوشی سے بھی بدترین نشہ ہے جو انسان کی عقل کو زائل کردیتا ہے اور انسان جاہز و ناجائز میں فرق کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ اہل جہل کا تصور ہے کہ عصر حاضر میں تب تک انسان اونچا مقام حاصل نہیں کرسکتا جب تک دھوکہ دہی اور فریب سے کام نہ لے۔ اس بات کو ایک حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں جسے امام ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی السنن کے اندر لاۓ ہیں اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسکی سند اور متن کو صحیح کہا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانہ میں «رويبضة» بات کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: «رويبضة» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا“۔(رقم الحدیث، 4036)
حصول دولت
عصر حاضر میں دولت انسان کا رب بن چکا ہے۔ دولت حاصل کرنے کے لئے انسان کسی بھی گھناؤنی حرکت میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ سلف صالحین بیان کرتے ہیں کہ ہر امت ایک بت ہوتا ہے جس کی وہ پوجا کرتے ہیں اور اس امت کا بت مال و دولت ہے۔قرآن میں متعدد مقامات پر دولت کو فتنہ یعنی آزمائش قرار دیا گیا۔ دولت کے آگے انسان کو اپنا دین بھی حقیر محسوس ہوتا ہے۔ آج ہمارے اذہان پر یہ امر غالب آچکا ہے کہ بغیر خیانت، بغیر دھوکہ ہم اپنا تجارت آگے نہیں پہنچا سکتے۔اس بات کو بھی ایک حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ جسے راقم مشکاۃ المصابیح سے نقل کر رہا ہے۔فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "اعمال صالحہ میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہو جائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا، نیز اپنے دین ومذہب کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ ڈالے گا۔”.صاحب مشکاۃ نے اسے صحیح مسلم سے نقل کیا ہے۔
طلب شہرت
رسول کریمﷺ نے اس دنیا سے انتقال کرنے سے پہلے صحابہ کو ریاکاری سے آگاہ کیا تھا۔ ریاکاری کو فتنہ دجال سے بھی بدترین قرار دیا گیا۔ عصر حاضر میں اعمال کم اور دکھاوا زیادہ ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ فتنہ دینی حلقوں میں زیادہ پھیل رہا ہے۔جس انسان کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہوتی وہ پھر ایسے آلات استعمال کرتا ہے کہ دینا سمجھ بیٹھتی ہے کہ اس سے بڑا کوئی عالم نہیں۔طلب شہرت کے لئے انسان دوسرے لوگوں کو اپنی سیڑھی کے اعتبار سے استعمال کرتا ہے۔ جب مطلب نکل جاتا ہے تب جاکر انسان دوسرے شکار کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ یہ وہ مرض بد ہے جو اعمال صالحہ کو ذرات میں تبدیل کر دیتا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ، "قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا”.یعنی "لوگوں سے کہ دیجیے کہ میں تو تم جیسا ایک انسان ہوں، البتہ میری طرح وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے- پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھرائے”۔ (القرآن)
طلب نکاح
آج معاملہ یہ ہے کہ انسان رشتہ طلب کرنے کے لئے انتہائی منافقت دکھاتا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور تصویر کچھ اور یا یوں کہا جائے کہ سارا معاملہ جعلی دستاویز پر مبنی ہوتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے اپنے متبعین کو تحقیق کرنے کی تلقین کی ہے۔فرمان ربانی ہے کہ، "يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ”.یعنی، "اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔” (القرآن)
دھوکے باز خالص منافق ہے
نفاق کا معنی ہے تضاد، ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ خیر کو ظاہر کرنا، شر کو پوشیدہ رکھنا۔ نفاق دو طرح کا ہوتا ہے، اعتقادی نفاق یعنی نفاق اکبر اور عملی نفاق یعنی نفاق اصغر۔ جس طرح شرک اصغر پر دوام سے انسان شرک اکبر و کفر تک پہنچ جاتا ہے بالکل اسی طرح عملی نفاق دھیرے دھیرے اعتقادی نفاق میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک شرعی قاعدہ ہے کہ صغیرہ گناھوں پر اسرار انہیں کبائر تک پہنچا دیتا ہے۔فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ” یعنی، "منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے”.(صحیح بخاری)
دھوکے باز خالص کذاب ہے
دھوکے باز کا پورا معاملہ جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ دھوکے باز آپ کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتا رہتا ہے۔ دھوکے باز لوگ اکثر معصوم اور فریب سے غافل افراد کو اپنا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ جذبات کا فائدہ اٹھانا یہ اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ یہ کائنات کے بدترین افراد اور شاطر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "سب سے برا لوگوں میں تم اس کو پاتے ہو جو دو منہ رکھتا ہے ان لوگوں کے پاس ایک منہ لے کر آتا ہے اور ان لوگوں کے پاس دوسرا منہ لے کر جاتا ہے۔“(صحیح مسلم)
دھوکے باز دل کے مریض ہوتے ہیں
روحانی امراض طبی امراض سے زیادہ مہلک ہوتے ہیں۔طبی امراض اجسام و اجساد پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ روحانی امراض روح و بصیرت پر مضر اثر چھوڑ جاتے ہیں۔چونکہ دھوکے باز افراد اعمال کے اعتبار سے منافق ہوتے ہیں ، اور منافقین میں یہ بات مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے کہ وہ دل کے مریض ہوتے ہیں۔ فرمان ربانی ہے کہ، "اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور ہمیشہ صاف ستھری بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا وہ عظیم الشان کامیابی کو حاصل کر لے گا۔‘‘(القرآن)
دھوکے باز کے لئے رسوا کن عذاب
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "ہر دھوکے باز کیلئے قیامت والے دن (بطور نشانی کے) ایک جھنڈا ہو گا۔ کہا جائے گا: یہ فلاں کی دھوکے بازی ہے۔‘‘(حدیث صحیح) فرمان رسول کریمﷺ ہے کہ، "مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے کسی مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے عیب و نقص پر مبنی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ طے کرے، بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ اس عیب و نقص کو واضح طور پر بیان کر دے”.(سنن ابن ماجہ)
دھوکے باز کے لئے خسارہ
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ ، "اے تاجروں کی جماعت! پس سب تاجروں نے نظریں اُٹھا کر آپ کی طرف دیکھا پھر آپ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! سب تاجر روزِ قیامت گناہوں میں لت پت اُٹھائے جائیں گے مگر وہ نہیں جنہوں نے نیکی اور سچائی کے دامن کو ہمیشہ پکڑے رکھا۔‘‘(جامع ترمذی) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جس شخص کو بھی اللہ نے عوام و رعایا کا نگران و حاکم مقرر کیا ہو پھر وہ اپنی عوام و رعیت سے دھوکہ کرتے ہوئے مر جاتا ہے تو اللہ نے اس کے جسم کو جنت پر حرام کر دیا ہے (یعنی وہ جنت میں نہیں جائے گا)‘‘ دوسرے الفاظ یہ ہیں ’’کسی آدمی کو اللہ عوام کا نگران مقررکرتا ہے پھر وہ اُن کی ضروریات و مصالح کے حوالے سے پاس داری نہیں برتتا تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘(وسندہ حسن)
دھوکے باز نبی ﷺ کا باغی
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "من غشّ فلیس منّا” (مسلم) "جس نے ملاوٹ و دھوکہ وہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ فرمان ربانی ہے کہ، "ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے ہلاکت و بربادی ہے کہ جب لوگوں سے ناپ کرتے ہیں تو پورا پورا ناپ کرتے ہیں لیکن جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو اس میں کمی کر دیتے ہیں۔ کیا یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں ایک بڑے اور عظیم الشان دن میں اُٹھایا جائے گا۔ ایسا دن کہ جس میں سب لوگ جہانوں کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‘‘(القرآن)
"If you love someone you don’t cheat. If you want to cheat set them free.
A bird sitting on a tree is never afraid of the branch breaking because her trust is not on the branch but on her own wings”.
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ امت مسلمہ کو اس مہلک مرض سے دور رکھے، اللہ ہمارے معاملات کی اصلاح فرماۓ۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔