رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
ماجد ہائی اسکول میں بحثت ایک استاد کام کرتا تھا ۔ وہ ہمیشہ ڈیوٹی دیر سے آتا تھا ۔ ڈیوٹی سے غفلت برتنا اس نے اپنا معمول بنایا تھا ۔ بہت بار اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب اور دوسرے آفیسروں نے ماجد کو متنبہ کیا کہ ڈیوٹی میں غفلت برتنے کے بجائے اپنے آپ میں سدھار لائے مگر ماجد کبھی ٹس سے مس نہیں ہوا ۔ جمعہ کے دن وہ نماز کا بہانہ بناکر اکثر دن کے بارہ بجے ہی اسکول سے واپس گھر لوٹتا تھا ۔۔۔۔۔
اسکول کے سبھی اساتذہ اور ہیڈماسٹر صاحب ماجد کے رویے اور ڈیوٹی میں غفلت برتنے کی بری عادت سے تنگ آئے تھے ۔ اساتذہ کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی ماجد کے وطیرے میں کوئی بھی مثبت تبدیلی نہ آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بریک کے وقت سبھی اساتذہ اسٹاف روم میں چاے پی رہے تھے تو ایک استاد کے موبائل فون کی گھنٹی بج گئی ۔ واٹسیپ پہ نظر ڈالتے ہوئے معلوم ہوا کہ محکمہ تعلیم کے اعلی حکام کی طرف سے نیا حکمنامہ جاری ہوا ہے ۔ ماجد کو اسکول کی زمہ داری سونپی گئی ہے کیونکہ ہیڈماسٹر صاحب کو اسی مہینے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہونا تھا اور ماجد ہی اسکول میں ہیڈماسٹر صاحب کے بعد سب سے سینیئر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماجد دو دن تک سوچتا رہا کہ کیا کروں ۔ اگلے ہفتے کے پہلے ہی دن اس نے اسکول میں میٹنگ بلا کر کئی اہم فیصلے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر کسی استاد کو چاہیے کہ روز صبح دس بجے سے پہلے پہلے اپنی حاضری یقینی بنائے ۔ ہر پندرہ دن کے بعد اپنے سبجیکٹ کا رپورٹ مجھے پیش کرے اور طالب علموں کا ٹیسٹ لیا جائے ۔ جب بھی میں کلاسوں کا معائنہ کروں گا اور اچھے نتائج برآمد نہ کروں تو میں رپورٹ سیدھے متعلقہ حکام کو بھیجوں گا ۔ جمعہ کے دن کوئی بھی استاد نزدیکی مسجد کے بغیر کسی دوسری مسجد میں نماز نہیں ادا کرسکتا ۔ والدین کی طرف سے کسی استاد کے خلاف شکایت ملنے پر اسکو بخشا نہیں جائے گا ۔۔۔۔۔
اگلے ہفتے سے سبھی اساتذہ اور ماجد اپنی ڈیوٹیاں خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے لگیں ۔ جب گھر میں بیوی اور بچوں نے ماجد کو سوالات پوچھے کہ آج کل ڈیوٹی کی اتنی فکر اور ایمانداری سے اپنا کام کیسے انجام دیتے ہو تو ماجد واپس جواب دیتا ہے۔۔۔۔۔
” آج کل مجھے اسکول میں نئی زمہ داری سونپی گئی ہے”
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔