الف عاجز اعجاز
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر
صبح سویرے فجر اذان کی مدھر اور میٹھی آواز سنتے ہی آنکھیں کھل گئی اور میں فوراً وضو کرکے مسجد چلا گیا۔ نماز ادا کیدرود و سلام اور ذکر و اذکار کرنے کے بعد جب مسجد سے باہر نکل آیا تو دیکھا آج خلافِ معمول لوگ ٹولیوں میں جمع تھے اور سرگوشیاں کر رہے تھے۔ لوگوں کو ایسے دیکھ کر دل بہت گھبرایا کہ نہ جانے کیا ہوا ہے اور اسی گبھراہٹ کے ساتھ میں آگے بڑھنے لگا تو ایک ٹولی دوستوں کی نظر آئی۔ میں بھی حالتِ تجسس میں اُن کے پاس گیا اور دریافت کرنے لگا کہ کیا ہوا ہے آج اتنی بھیڑ کیوں ہیں اور یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ تو اُن میں سے ایک دوست میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا یار تجھے کچھ نہیں پتہ۔
میں نے پوچھا کیا؟ یار موثن کے صحنمیں لاش پڑی ہیں۔ لاش! لاش کا نام سنتے ہی میں لرز اُٹھا اور گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا کس کی لاش؟ تو ایک دوست نے کہا ہمیں بھی ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہوا ۔ ہم نے جو بھی سُنا لوگوں کی زبان سے ہی سُنا چل نا چل کر دیکھ آتے ہیں اور ہم سب موثن کے گھر کی اور چل دئے۔ لیکن لاش کا نام سُن کر میرے ٹانگوں میں چلنے کی قوت نہ رہی تھی میں بڑی مشکل سے قدم اُٹھا رہا تھا اور بلآخر ہم موثن کے گھرپہنچ گئے۔ جہاں سچ میں ایک لاش پڑی تھی مگر کسی میں یہ ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ لاش کے چہرے سے پردہ ہٹا کر یہ پتہ کرے کہ یہ کون ہیں۔ سب پریشان حال ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا اور لاش کے چہرے سے پردہ ہٹ گیا۔ تو دیکھا کہ وہ وہی تھی۔ اس کی گردن دائیں کی اور مڑی ہوئی تھی اور کان سے خون بہہ کر چہرے پر پھیل چکا تھا۔ آنکھیں کھلی ہوئی اتنی پُر امید تھی جیسے کسی روشن صبح کی راہ دیکھ رہی ہو، سر کا دوپٹہ گلے میں ایسے لٹکا تھا جیسے پھانسی کا پھندا ہو اور کلائی پر بندھی گھڑی اُس کے رخصت ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔
اُس کو دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا اس سے پہلے کہ میں کچھ کہم پاتا کسی کی آواز سنائی دی یار یہ تومزمل ہیں۔ اس کو کیا ہو گیا۔ مزمل! ہاں یہ مزمل تھی اپنی مزمل۔ میں اور مزمل بچپن سے ایک ساتھ پڑھتے تھے اور وہ کلاس کی سب سے خوبصورت اور ذہین لڑکی تھی۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہم سب اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہوگئے۔ لیکن کچھ سال پہلے سُننے میں آیا تھا کہ مزمل کی شادی ہو گئیتھیتو سُن کر بہت بُرا لگا کیونکہ وہ بہت ذہین تھیں اور اُس کے خواب بھی بہت بلند تھے ۔ وہ بہت کچھ کر سکتی تھیں مگر پتہ نہیں اُس کو شادی کی اتنی جلدی کیا تھی یا سماج کے دباؤ میں آکر اُس نے شادی کی ہو جو ہر وقت لڑکیوں پر نظریں جمائے رکھتا ہے اور اُنہیں اپنی مرضی کی زندگی نہیں جینے دیتا۔ خیر میں نے یہ سُنا تو تھا کہ اُس کی شادی ہوچکی ہیں مگر اُس سے کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہُوا اور کچھ دن پہلے میں گاڑی میں سوار تھا اور شہر جا رہا تھا۔ گاڑی میں کچھ سواریاں باقی تھی اور ڈرائیور آواز لگا لگا کر سواریوں کو بُلا رہا تھا۔ مجھے بہت دیر ہو رہی تھی اور میں بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا اتنے میں ایک عورت گود میں بچہ لئے میری پاس والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔ ایک دو بار اُس نے میریطرف دیکھا اور پھر شفقت بھرے لہجے میں سلام کر کے حال چال پوچھنے لگی۔
وہ مزمل تھی لیکن میں اُس کو پہچان نہ پایا۔ کیونکہ اس کی حالت نا قابلِ یقین تھی۔ جسم سے کمزور اور نازک، آنکھیں پرنم، سفید خشک ہونٹ، سر پر ایک لمبی سی چادر اور اُداس چہرے پر درد ناک مسکراہٹ جو صدیوں کی ریاضت بیان کر رہی تھی۔ اُس کا بے کس چہرہ دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ وہ زندگی سے تنگ آچکی ہیں اور کسی مجبوری کی خاطر جی رہی ہیں۔ میرے بہت اصرار پر اُس نے اپنی حالتِ زار سُنائی۔ کہنے لگی میں جینا نہیں چاہتی، اب اور جیاہی نہیں جاتامجھ سے، لیکن کیا کروں سانسیں لینی پڑتی ہے۔ زندگی سے بہت تنگ آچکی ہوں، تم تو جانتے ہو نا میں آگے بڑھنا چاہتی تھی۔ سماج کی بُرائیوں کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتی تھی، اُن عورتوں کی آواز بننا چاہتی تھی جو سماج کے ڈر کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتی ہیں لیکن مجھے کیا پتہ تھا شادی کے بعد میری خود کی زندگی اتنی اجیرن بن جائے گی۔ میرا شوہر پہلے پہل تو میرے ساتھ بہت اچھا تھا لیکن پتہ نہیں کیسے وہ بھی بدل گیا اب تو لگتا ہے دکھاوے کی محبت کرتا ہے مجھ سے اُس کو اگر کسی چیز سے سچی محبت ہے تو وہ ہے مال و دولت، میرے سسرال والوں کی طرف سے بار بار جہیز کی مانگ ہوتی رہی اور بابا زمین بھیج بھیج کراُن کی ہر مانگ پوری کرتے گئے۔
سونا، چاندی، گاڑی، بنگلہ اور نہ جانے کیا کیا لیکن اِس کے باوجود بھی میرے ساتھ کبھی انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا اُن لوگوں نے۔ ڈھائی سال ہوگئے ہیں مجھے بابا کے گھر میں اور بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوتے بولی جب سے یہ پیدا ہوئی اور اِس کو تو آج تک اس کے باپ نے دیکھا ہی نہیں۔کل ڈھائی سال بعد سُسرال واپس جا رہی ہوں اور پتہ نہیں کتنے دن رکھے گے مجھے وہاں بلکہ اب تو ڈر لگنے لگا ہے مجھے مار ہی نہ دینگےوہ لوگ۔ میں نے کہا ایسی بات ہے مزمل تو کیوں جا رہی ہو وہاں، اپنے شوہر سےطلاق لے لو اور آرام سے اپنی زندگی جی لو۔ کہنے لگی سچ کہوں تو میں نہیں جانا چاہتی اور بیٹی کی طرف پھر اشارہ کر کے کہنے لگی لیکن اس کی خاطر جا رہی ہوں تاکہ اس کو بھی تو باپ کا پیار ملے۔ میں جانتی ہوں مجھے وہاں جاکر اذیتیں اٹھانی ہوگی لیکن اپنے بچوں کی خاطر ہر اذیت اٹھانے کے لئے تیار ہوں اور سچ کہو تو میں سانس بھی ان کی خاطر ہی لے رہی ہوں۔ ورنہ میں جینا نہیں چاہتی اور اتنے میں گاڑی روک کر وہ اتر گئی۔ لیکن میں اُس کے بارے میں دیر تک سوچتا رہا کہ کتنے بلند خیالوں والی لڑکی تھی۔ جو دوسروں کی خاطر سب کچھ کرنا چاہتی تھی آج اپنے بچوں کی محبت میں خود کے لئے کچھ نہیں کر پاتی۔
میرے سامنے مزمل کی لاش پڑی تھی اور اُس کے چہرے پر بکھرا ہوا خون کئی کہانیاں بیاں کر رہا تھا شاید اُس کا ڈر صحیح تھا۔ اُس نے جو بھی کہا تھا آج عملی صورت میں میرے سامنے موجود تھا۔ میں خود کو سنبھال نہیں پا رہا تھا میرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور کسی دوست کا سہارا لے کر وہی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور مزمل کی لاش کو دیکھتا رہا۔