تحریر: الطاف جمیل ندوی
نیشنل ہائے وے سے متصل گاؤں ترمہگنڈ نامی ہائگام اور ہامرے کے بیچ آس پاس لہلاتے باغات کے درمیان ریلوے اسٹیشن ہامرے سے دو کلو میٹر دوری پر واقع ایک ایسا بھی بدنصیب گاؤں ہے جو آج کے اس ماڈرن کہئے یا دور جدید کی چکا چوند میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہی ہے اس بستی کے کئی مسائل ہیں آج مناسب لگا کہ ان میں سے کچھ مسائل آپ ضبط تحریر لائے جائیں کہ شاید کوئی سبیل پیدا ہو اور یہاں بھی انسانی ضروریات میسر ہوجائیں
اس بستی جس کا نام ترمہگنڈ ہے کی آبادی تقریباً چار پانچ سو کے آس پاس ہے علامہ کشمیری سے منسوب ایک زمین کا ٹکڑا آج بھی موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ علامہ کشمیری کا مسکن رہی ہے جہاں وہ کچھ مدت تک قیام پذیر رہے ہیں اس بستی میں ایک خوبصورت جامع مسجد اور ایک چھوٹی سی مسجد ایک مڈل سکول بھی واقع ہے جو کہ برلب قبرستان موجود ہے سڑک نیشنل ہائی وے سے گاؤں تک گرچہ پختہ بنائی گئی ہے پر اس سڑک پر ایستادہ ریلوے پل کی مصیبت جیسا ایک ہیولا موجود ہے جہاں سے گر اہل بستی کبھی کوئی بڑا ٹرک گزارنا چاہیں تو ممکنات میں سے نہیں ہے ایسے ہی لوگوں کی زراعت کا خیال کرتے ہوئے ریلوے ڈپارٹمنٹ نے نکاسی پانی کے لئے کچھ پل جیسی چیزیں بھی ٹریک کے نیچے بنائی ہیں جو گندگی اور غلاظت کی آماجگاہیں بن چکی ہیں جہاں پورے سال ان میں رکا پانی نکلنا تو دشوار ہی نہیں بلکہ یہ کبھی خشک تک نہیں ہوتے خیر یہ تو وہ مصیبت ہے جو اب شاید آئندہ کئی نسلوں کو مبتلائے مصیبت بنا رہے گا انسانی ضروریات جن کی تعداد بیان کرنا اس وقت ممکن نہیں پر کچھ ضروریات زندگی ایسی ہیں جن کے سوا چارہ ممکن ہی نہیں
پانی
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پانی زندگی ہے کیونکہ یہ اس حیاتِ کارواں کا بنیادی جزو ہے۔ انسانی جسم 70فیصد پانی پر مشتمل ہے اور اس میں کمی سے صحت کے حوالے سے کئی مسائل پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ انسان کو اسی وقت ہوتا ہے جب اسے کافی دیر تک پانی میسر نہ آئے۔ پانی کی کمی کا نتیجہ تھکاوٹ اور الجھن کے ساتھ ساتھ پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔اس کی وجہ سے توجہ، مستعدی اور قلیل مدتی یادداشت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ پانی کی کمی سے بے چینی بڑھ جاتی ہے اور اس کی طلب میں انسان جاں بلب ہونے لگتا ہے۔ شدید پیاس کی حالت میں ایک گلاس پانی مل جانا جسم کے ساتھ روح کو بھی تر کردیتا ہے۔
انسانی صحت کے لیے پانی نہایت ضروری ہے۔ اس کے بہت سے اہم افعال ہیں جیسے کہ جسم سے فضلہ نکالنا، جسم کے درجہ حرارت کو منظم رکھنا اور دماغی افعال میں مدد کرنا وغیرہ۔ ہم روزمرہ درکار پانی کا 20فیصد غذاؤں سے حاصل کرتے ہیں جبکہ باقی مقدار پینے کے پانی اور دیگر مشروبات سے حاصل کی جاتی ہے۔ پانی کی ضرورت اور افعال سے لاعلم لوگوں کو جب اس کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے تو وہ اس نعمت کی قدر کرنے لگتے ہیں پر ہمارے گاؤں میں صرف ایک نل جس سے کبھی کبھار ہی درد کی ٹھیس اٹھتی ہے اور اس کے منہ سے دو بوند پانی کے گرتے ہیں اور سامنے گاؤں کی خواتین کی چینخیں نکل جاتی ہیں اس بوند کو حاصل کرنے کے لئے میرے خیال سے شاید یہ گاؤں کشمیر کا واحد ایک بدنصیب گاؤں ہے جہاں خواتین آج بھی پانی کی بوند بوند پانے کے لئے نہار منہ گھر سے مٹکے لے کر نل کے سامنے مؤدب بیٹھی رہتی ہیں انتظار میں پانی کی آمد کے کبھی کبھی یہ انتظار شام تک ہوکر بھی لاحاصل ہی رہتا ہے پر کبھی تو پانی کی تھوڑی مقدار میسر ہوجاتی ہے
ہمارے گاؤں کی جامع مسجد کے بلکل سامنے ایک ٹیوب ویل کھودا گیا پر اس کا پانی گیس سے بھر پور ہے دو تین بار اس سے پانی دھوئے جائیں تو برتن پاک تو ہوجاتے ہیں پر ان کی شکل و صورت اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ پھر دوبارہ ان میں کھانا کھایا یا پکایا تو نہیں جاتا پر ان کے کالے پن پر آہ بلند ہوتی ضرور ہے خواتین کی یہخ حال تمام ان ٹیوب ولیز کا ہے جو یہاں ازخود لوگ ضرورت کے لئے تیار کرتے ہیں اس پانی سے لوگوں میں مختلف تکالیف کا پیدا ہونا غیر ممکن بھی نہیں بلکہ ممکنات میں سے ہے
ارباب حل و عقد کیا اس مصیبت سے نجات کے لئے اس بستی کی مدد کریں گئے امید تو ہے پر یقین نہیں آتا کہ اس بستی میں بھی کبھی گھر گھر میں صاف و شفاف پانی میسر ہوگا خیر جب بھی ہوگا تب تک ہم نہ ہوں شاید جب یہ زیادہ بھی کوئی مشکل نہیں کیوں کہ اس بستی کے پاس ہی بقیہ بستیوں میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پانی موجود ہے اور صرف لوگ پیتے ہی نہیں بلکہ وہ زمین میں بھی یہ پانی استعمال کرتے ہیں اور سبزیوں میں تو خاص طور پر پر یہ ہیں کہ ترستی نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں کہ کاش اپنے نصیب میں بھی صاف و شفاف پانی میسر ہوتا تو کیا ہوتا
ندی
ایک چھوٹی سی ندی بھی گاؤں کے بیچ و بیچ بہہ رہی ہے جو کبھی اپنی رعنائی و جوانی کے ہوتے ہوئے چار پانچ ہزار کنال تک کی آبی زمین کو سیراب کرنے کو کافی ہوا کرتی تھی پر خیر سے بستی کے لوگوں نے اس کا حجم اس قدر کم کردیا کہ یہ اب ندی کے بجائے نکاسی آب کا نل لگتا ہے جس میں بستی کے لوگوں کی لاعلمی کے سبب اکثر غلاظت اور گندگی کے ڈھیر لوگوں کا منہ چڑھاتے ہیں یہ ندی واحد ذریعہ ہے کھیتوں تک پانی کے پہنچنے کا نہ ہی اہل بستی اس کی صفائی کا سوچتے ہیں اور نہ ہی آب پاشی کا محکمہ یا ان ندی نالوں کا محافظ عملہ ہی اس بارے میں کچھ کاروائی کرتا ہے بلکہ جب کھیت کے مالک لوگ آبی اول کو خشکی میں تبدیل کردیتے ہیں تنگ آکر تب کسی کسی کے نام تحصیل وغیرہ سے بلاوا آجاتا ہے پر اس کے باوجود بھی اکثر آبی اول باغات میں تبدیل ہورہی ہے اور سال بہ سال اس میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے
بجلی
بجلی موجود ہے اور پوری بستی میں بجلی کے تار بچھے ہوئے ہیں پر الم یہ کہ اکثر ترسیلی لائنیں خام درختوں کی ٹہنیوں پر سوار ہیں جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ رونما ہوسکتا ہے بجلی کے کھبے تو کئی جگہوں پر بیکار پڑے ہیں اس انتظار میں کہ ہمیں استعمال کیا جائے پر اس کے ملازمین مولا جانیں ضرورت مندوں تک کیونکر نہیں پہنچاتے وہ بہتر جانتے ہیں کہ اس کا سبب کیا ہے بستی کا الم یہ بھی ہے کہ ہلکا سا ہوا کا جھونکا کیا گزرا یا تھوڑی سی برف کیا گری کہ محترمہ بجلی صاحبہ جیسے اپنے میکے چلی جاتی ہے وہ بھی سسرال میں ساس سے تنگ آکر اور کئی کئی دن حیلے بہانے تراشتی رہتی ہے یہی حال ہے اس بجلی کا جو اس بستی کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے کاش کوئی اس طرف توجہ دیتا تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا تھا بس تھوڑی سی توجہ تاکہ اس بستی کے لئے بھی آسانیاں پیدا ہوجائین اور یہاں کی نسل نو کم از کم بنیادی ضروریات سے محرومی کی مصیبت میں پروان نہ چڑھے جس کی کسک نکالے بھی پھر نکلنے کا نام نہیں لیتی امید ہے کہ یہ التماس قابل توجہ سجھی جائے گی
باقی پھر کبھی
مطلب یار زندہ صحبت باقی