از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر بارہمولہ
رابط:6006952656
صبح موبائل ہاتھ میں لے کر جونہی فیس بک دیکھا تو ایک تصویر نظر سے گزری جو وادی کے نامور ادیب, قلمکار اور شاعر عابد اشرف نے پوسٹ کی تھی. اس تصویر میں بچے چندرسیر پٹن کی ایک عام سڑک پر کتاب کھول کر کچھ پڑھتے نظر آتے ہیں. یہ تصویر قوم کے باشعور انسانوں اور تعلیمی خیرخواہوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے.
اس سے کئی افکار جنم لیتے ہیں جو ہمارے خوفتہ شعور کو بیدار کرکے ہمیں تعلیم کی خستہ حالی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہے. یہ تصویر انتظامیہ کا گریباں پکڑ کر چیخ چیخ کر کچھ کہہ رہی ہے. اس تصویر سے احساس ہوتا ہے کہ یہ شگوفے اس سنگین احساس سے گزر رہے ہیں کہ ہماری تعلیم کے بارے میں شاید کوئی اس شہر میں فکر مند نہیں ہیں اس لیے اب مصیبت کے ان لمحوں میں یہ اپنے بارے میں خود ہی سوچنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.
یہ تصویر قوم کے نام پکار پکار اپنا پیغام جاری کرتی ہے کہ خدارا اس تعلیمی تباہی سے ان مہکتے پھولوں کو بچاو اور ہمارے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوجاو.یہ شگوفے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں اس قدر یتیم ہوئے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں. سیاسی کارستانیوں سے لیکر کرونا کی دہشت تک کس قدر ہمارے بچوں کی تعلیم برباد ہوئی یہ تصویر اس بات کا واضح اظہار ہے.
اس تصویر نے میرے ذہن کو عجیب سوالوں کے گھیراو میں قید کیا اور خیالات تولد ہوئے کہ کون ان شگوفوں کے لیے فکر مند ہوگا جن کے وجود سے ہی اس قوم کا کل محفوظ ہے.
ان تصویروں کو قوم کے درد مند لوگ سنجیدگی سے لیں گے اور انتظامیہ بھی اب ہوش کے ناخن لے کر ایک سود مند لائحہ عمل تیار کرکے وفاداری کا ثبوت دیں گےاور اپنے فہم کو اس بارے میں بیدار کریں گے کہ ہمارا تعلیم نظام تباہی کےدلدل میں پھنس چکا ہے.ان بچوں کے مستقبل کی حفاظت اور تعلیمی ترقی کے لیے فرد فرد کو بیدار ہونا ہے اور موجودہ پریشانیوں میں صرف تعلیمی ترقی کے لیے اپنے فہم کو بیدار کرنا ہے.ان شگوفوں کے چہرےپر خاموش فریاد درج ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کیجیے اور اس تعلیمی صورتحالی کو ٹھیک کرنے کے لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کیجیے.