از قلم اعجاز بابا
نائدکھئے سوناواری
انڈرگریجوٹ طالب علم ، ڈگری کالج سوپور
زندگی بعض اوقات اتنی مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ بہت ساری حل شدہ چیزیں حل طلب نہیں رہتی، جدوجہد اور پریشینوں ہمارے ساتھ طویل عرصے تک قائم رہتی اور انسان ہر پل پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے ،پھر کچھ دل اور گھر بنجر بن جاتے ہیں، خواہشوں کے قافلے پالنے والے ہمیں ڈیپریشن اور مایوسی کے شکار رہتے ہیں۔اگر ہم اپنی حسین و جمیل وادی پر ایک وعسی نظر ڈالی گئے تو یہاں سیاسی ہلچل اور سیاسی کارستانیوں سے لےکر کروانا وائرس کی طوفانی لہر تک یہاں کے عوام نے ہمیشہ سختی اور بدحالی میں زندگی بسر کی ہے، لیکن بدقسمتی کے ساتھ ماضی کے ۲ ،۳ مہینوں سے یہاں کے نواجون ایک غیر متحلقہ عمل خودکشی کرنے لگے، اگر ہم اس کا تقابلی جائزہ کرینگے تو یہ کشمیر کی تعلیمی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ترقی و تعمیر کے لئے ایک ابدی روکاوٹ سے کم نہیں۔
اگر چہ ہم خودکشی کرنے والے شخصیات کو دیکھیں تو یہ ۱۵ سے ۳۰ سال کے نوجوان کر رہے ہیں جو ہم لئے کسی تیز آندھی اور طوفان سے کم نہیں ،آخر کیا وجہ، کیا وجہ ہے کیونکہ کشمیر کے یہ دلکش نواجوان خودکشیاں کر رہے ہیں ہم ہماری لئے بحثیت ایک زندہ قوم لمحہ فکریہ ہے اور ہمارے قوم کے مفکرو، دانشوروں اور صحافیوں کے لئے زمہ داری ہے یہ اس مسئلہ پر دل کھول کے بات کرنی چاہیے اور اس کے اسباب اور حل پر غور و فکر کرنا چاہیے .
نوجوان جو کسی بھی ڈیپریشن یا کسی بھی مایوسی کے شکار ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو تمام منفی سوچ سے آزاد کرائیں اور ساتھ ساتھ تمام تر پریشانیوں، رنج عالم، مایوسی اور اداسی سے ذہن سے نکال کر ذہن خالی کر دیں، تاکہ زندگی میں پھر ایسا اسٹیج نہ کہ خودکشی انسان ایک اوپیشن سمجھے کیونکہ انسان کو طرح طرح کی مایوسی پہلے دل کو بنجر بنا کر اور پھر ذہن کی خراب کرتا ہے ،اگرچہ زندگی میں تلخی، اداسی، غم، پریشانی، اور مشکلات ہے پھر بھی کٹھن حالات کے بعد زندگی انسان کے لئے امیدوں کا سمندر کھولتا ہیں.
مفکروں، انتظامیہ اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہبی باشعور فرد و زن کو بھی اس ناخوشگوار عمل کو روکنے کے لئے کمربستہ ہونا چاہیے اور وقت آچکا ہے کہ مسجدوں میں بڑے پیمانے پر مینار تعمیر کے بجائے مسجد کی بغل میں ایک کمرہ تعمیر کرنا چاہیے جہاں ڈیپریشن میں مبتلا نوجوان کے لئے کونسیلنگ کی جائے اور انہیں مذہبی اور دنیاوی تعلیم سے طرح طرح کی مایوسی اور ڈیپریشن سے نکال کر انہیں عام زندگی پر لا سکیں تاکہ لاکھوں کی تعداد میں جنہیں خودکشی کا خیال ذہن میں ہے وہ اس نا خوشگوار اور بد ترین جانی دشمن عمل سے بچ جائیں ۔