تجزیہ نگار: اشؔہر اشرف
کشمیر
ہمارے آج کے شاعر ریاستِ جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام کے مشہور و معروف علاقے چرارِ شریف سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں رومانوی خیالات پر مبنی احساسات و جذبات کے برعکس مزاحمتی اور احتجاجی مضامین ملتے ہیں۔ کئی سالوں سے متواتر لکھتے آئے ہیں اور بطورِ احتجاجی و نظریاتی شاعر کی حثیت سے ادبی حلقوں میں اپنی چھاپ چھوڑنے میں قریب قریب کامیاب نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے زیرِ بحث کلام کو اپنی خوشی سے تنقیدی جائزے کے لئے پیش کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک کامیاب اور مخلص تخلیق کار کی پہچان ہے۔
کلام پر گفتگو کرنے سے پہلے اردو شاعری میں احتجاجی و انقلابی شعراء کی فہرست پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ شاعری میں ہر دور میں شعراء نے وقت وحالات کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے مضامین کا انتخاب کیا اور اپنے خیالات و مشاہدات پیش کرنےکے لئے شاعری کو اپنا وسیلہء اظہار بنایا۔۔۔
اردو کے شاعری میں جن قد آور شعراء کے یہاں نظریاتی ( احتجاجی، مزاحمتی اور انقلابی) خیالات موثر و پر تاثیر انداز میں ملتے ہیں ان میں الطاف حسین حالی، ، شبلی ،اقبال، ساحرؔ لدھیانوی، چکبست ،بسمل، حبیب جالبؔ، فیض احمد فیضؔ اور کئی معلوم و نا معلوم شعرا شامل ہیں جن کی شاعری سے متحدہ ہندوستان کی تحریک آزادی سے آج تک ہر احتجاجی و مزاحمتی تحریک کو فروغ ملا اور آج بھی حسبِ ضرورت لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس بحث کو یہیں روک کر آج کے منتخب کلام کے حوالے سے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔
غزل
آہیں ہیں سسکیاں اور مجبوریاں ہیں بس
دامن ہیں تار تار اور محرومیاں ہیں بس
بکھری پڑی ہوئی ہیں لاشیں ادھر ادھر
کاندھے ہیں نا تواں اور کمزوریاں ہیں بس
کرتے نہیں ہیں اف یہ معمول بن گیا
کٹتے ہیں بے دریغ اور سر کوبیاں ہیں بس
یعنی کہ خستہ دل ہے اپنے حصار میں
ہم ہیں ہمارا حال اور سرگوشیاں ہیں بس
تسکین کا ذریعہ سمجھا گیا ہمیں
دنیا جہاں ہے چپ اور خاموشیاں ہیں بس
سب سے پہلے میں بتاتا چلوں کہ میں یہاں کلام کے اوزان یا بحر کو گفتگو کا حصہ نہیں بناتا لیکن جن عناصر کے ساتھ کلام کی فصاحت و بلاغت کا تعلق ہوتا ہے ان کی نشاندہی میں ضرور کروں گا ۔۔۔۔مذکورہ کلام۔۔۔ افاعیل کو ایک تجربے کے طور پر۔۔۔ مقطع۔۔۔بحر
"مضارع مثمن اخرب محذوف”
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن کے سانچے میں پیش کیا گیا ہے جو کہ عروضیوں کے نزدیک کوئی مروجہ یا مستعمل بحر نہیں ہے۔ اس نظر یے سے یہ عیب گردانا جائے گا۔۔۔۔جب کہ اس بحر کی اصلی شکل جو رائج اور مستعمل ہے یہ ہے۔
"مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن” "رمل مثمن مشکول مسکن ”
اس خامی کا یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ تخلیق کار افاعیل کے انتخاب میں بھی خیال رکھیں اور دوسرے یہاں ان صاحبان کے متوقع سوالات کا پیشگی جواب دینا ہے جو تنقید کی بنیاد صرف وزن اور بحر کو ہی سمجھتے ہیں اورجن کے نزدیک مضمون کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ افاعیل میں مناسب تجربات ہوتے آئے ہیں۔ اس معاملے میں تخلیق کار آزاد یے۔ یہ وقت پر منحصر ہے کہ تجربہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔
تو آئیے مطلع کا جائزہ لیتے ہیں۔۔
آہیں ہیں سسکیاں اور مجبوریاں ہیں بس
دامن ہیں تار تار اور محرومیاں ہیں بس
جیسا میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ شاعرِ مذکور اپنی الگ راہ اختیار کر کے بطورِ ایک نظریاتی شاعر کے اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ حسبِ مزاج ، مطلع میں بھی شاعر نے اپنے معاشرے کی بھر پور عکاسی کر نے کی کوشش کی ہے اور کامیاب نظر آتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو ۔۔۔آہیں۔۔۔ سسکیاں۔۔۔اور مجبوریاں۔۔۔ کی ترکیب۔۔۔۔کے ساتھ ۔۔۔۔بس۔۔ کی ردیف۔۔ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس ماحول اور معاشرے میں شاعر سانس لے رہا ہے اس کی زمینی صورت حال کیا ہے۔۔۔۔۔گویا کہ شاعر وقت کے ستائے اور ظلم و جبر کی چکی میں پسے ہوئے سماج کا حصہ ہے اور اس ظلم و جبر کے خلاف کھلی بغاوت کرنے کے بجائے احتجاج کا سہارا لیا ہے اور حقیت کی عکاسی کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ۔اس۔سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہی غم والم ان کا سرمایہ زندگی ہے ۔۔شاعر کے غم اور درد کا احساس اس وقت نازک صورت حال اختیار کرتا ہے جب مطلع کا دوسرا مصرع یہ منظر پیش کرتا ہےکہ یہ محرومیاں اور سسکیاں۔۔۔کے ساتھ ۔۔
"دامن ہیں تار تار اور محرومیاں ہیں بس” کی ترکیب لاتا ہے ۔
یہاں صورت حال کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا ہے جب کہ دامن،تار تار اور محرومیاں۔۔۔جیسے الفاظ اپنے وسعت معنی کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔
گویا کہ غزل کا مطلع اپنے اندر ایک وسیع العریض مضمون سموئے ہے۔جس کو سمجھنے کے لئے متذکرہ سماج اور معاشرے کا قریب سے جائزہ لینا ہوگا۔۔
اگلے شعر میں شاعری اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں۔۔
"بکھری پڑی ہوئی ہیں لاشیں ادھر ادھر
کاندھے ہیں نا تواں اور کمزوریاں ہیں بس”
مطلع میں بیان ہوا ہے ۔۔۔آہیں۔۔۔سسکیاں۔۔۔اور مجبوریاں۔اوردوسرے شعر میں۔۔۔۔ان سسکیوں۔۔اور آہوں۔۔۔کی وجوہات بیان کی گئیں۔۔
اس شعر کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔۔آسان الفاظ کی ترکیب میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔اگر چہ شاعر اپنے وطن کی رواں صورت حال کی حقیقی عکاسی کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔اس شعر میں بہت حد تک شاعر کی فنی کمزوریاں نظر آتیں ہیں۔
مذکورہ شعر میں اپنی بات پیش کرنے کے لئے شاعر نے کمزور ترکیب باندھی ہے۔۔۔۔جو صرف قافیہ اور ردیف کا شکم بھرنے کے لئے مجبوری میں کیا گیا ہے۔۔۔
بکھری۔۔۔۔۔۔سے مراد۔۔۔۔۔زمین پر پھیلی ہوئی۔۔۔منتشر حالت میں۔۔۔۔اور اس بات کی وضاحت۔۔۔ادھر اُدھر سے ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔تو مطلب صاف ہوا ہے کہ۔۔۔
"بکھری کے بعد۔۔۔۔پڑی۔۔۔۔کسی خاص اضافی معنی کے ساتھ نہیں ہے۔۔اس کے بعد۔۔۔ہوئی۔۔۔۔کے۔۔۔ساتھ ہیں۔۔۔بھی بات میں کوئی خاص وزن نہیں بڑھاتا ہے۔۔
اگر اس مضمون کو کسی اور بحر میں پیش کیا جاتا تو اس قدر بھرتی کے الفاظ کی حاجت نہیں رہتی۔۔۔
اب مصرع ثانی دیکھتے ہیں۔۔۔
"کاندھے ہیں ناتواں اور کمزوریاں ہیں بس”
غور طلب بات ہے کہ جب کاندھوں۔۔کے ساتھ ناتواں کا لفظ لایا گیا تو بات صاف ہوئی کہ ظلم سہنے اور مجبوریوں کا سامنا کئے بغیر گزارا نہیں ہے۔۔۔
کاندھے۔۔۔۔۔۔ہیں ناتوان۔۔۔ گویا۔۔۔۔کہ شاعر خود یا صیغہ غائب۔۔۔ مفلوک الحال ، بے بس و مجبور ہے۔۔پھر۔۔ قافیہ میں ۔۔۔۔کمزوریاں۔۔۔۔صرف بحر کا پیٹ بھرتا ہے اور شاعر کو قلبی راحت پہنچاتا ہے کہ شعر مکمل ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مضمون اور خیال کے اعتبار سے یہ شعر بھی بلند تخیل اور عمدہ عکاسی کا حامل ہے۔۔۔
اگر یہی مضمون اس انداز میں پیش کیا جائے گا تو زیادہ مناسب ہوسکتا ہے ۔
بکھری ہیں لاشیں ہر سو ماتم کناں آسماں
"بستی کہاں ہے، بستی کے اب نشاں ہیں بس ”
جب مصرع اولا میں ۔۔۔لاشیں۔۔۔اور وہ بھی بے گور و کفن ہونے کی صورت حال کے ساتھ بیان کی گئی کہ بستی زندہ اور ذی حس انسانوں سے قائم رہتی ہے،تو میرے خیال میں یا تو دوسرا مصرع کسی اور ترکیب میں باندھنا زیادہ مناسب رہے گا یا پھر جو ترکیب میں نے بطورِ مشورہ پیش کی۔۔۔۔۔۔۔شعر میں اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کوئی بھی لفظ معنوی اعتبار سے دوبارہ ایک جیسے معنی میں نہیں آنا چاہئے۔۔۔۔جو بات کسی لفظ میں پہلے بیان کی گئی ہو وہ دوبارہ دوسرے لفظ میں دہرانی نہیں چاہئے۔۔۔۔وہ پھر صرف۔۔۔حشو۔۔ کہلاتا ہے۔۔۔۔یعنی۔۔۔بھرتی اور غیر ضروری۔۔۔الفاظ۔۔۔جس کے بغیر بھی بات پوری ہوتی ہے۔۔۔
اب آگے بڑھتے ہیں۔۔
کرتے نہیں ہیں اف یہ معمول بن گیا
کٹتے ہیں بے دریغ اور سرکوبیاں ہیں بس
یہ شعر درست ہے پہلے سے جاری مضمون کو وسعت دیتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔۔۔اور الفاظ کی نشت و برخواست بھی مناسب ہے۔۔۔۔۔۔اس شعر ۔۔میں کٹتے۔۔۔ہیں کے ساتھ سر کوبیاں( کچلنے۔۔۔سزا۔۔۔سر قلم کرنے) جیسے مترادفات کے ساتھ درست ہے۔۔
اچھا شعر ہے اور کوئی غیر ضروری لفظ نہیں ہے شامل۔۔
یعنی کہ خستہ دل ہے اپنے حصار میں
ہم ہیں ہمارا حال اور سرگوشیاں ہیں بس
یہ شعر بھی معنوی اور مضمون کے اعتبار سے درست ہے لیکن پیشکش اس کی کمزور ہے۔۔۔
شعر کی ابتدا ۔۔۔یعنی کہ۔۔۔۔سے کرنا شعریات کو متاثر کرتی ہے ۔ اس لئے اس کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔
شعر عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے کوئی ثقیل لفظ معنوی جہتوں کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں یے۔
پہلے مصرعے میں ستم زدہ اور شکستہ دل سے شاعر اپنے دل کو۔ تشبہ دیتے ہیں۔۔۔۔اور اگلے مصرع میں اس کے شکستہ ہونے کا اسباب بیان کرتے ہیں۔۔۔۔ساتھ میں اپنے دل سے یا دوسرے معنی میں خود کلامی کا تذکرہ کرتے ہیں۔۔۔۔جو کہ مشاہدات و تجربات کے حوالے سے اہم کڑی ہے۔۔۔
اب آگے بڑھتے ہیں۔
تسکین کا ذریعہ سمجھا گیا ہمیں
دنیا جہاں ہے چپ اور خاموشیاں ہیں بس
اس شعر میں شاعر اپنی بے بسی اور مظلومی کا بیان اہلِ زمانہ سے شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔۔
جیسا کہ صیغہ ہمیں۔۔۔۔سے صاف ظاہر ہے کہ وادی کو سیر و تفریح کا سامان سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں کے بیل بوٹے، گل و گلزار۔۔۔ آبشار اور قدرتی نظارے سب کو نظر آتے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔یہاں کے لوگ نظر انداز کر دئے جاتے ہیں۔۔۔۔ان کے جذبات و احساسات کی کوئی قیمت نہیں۔۔۔ہے۔۔۔اتنے اہم اور حساس مضمون کو اس طرح پیش کرنا ایک بلند تخیل کے مالک فنکار کا ہی شیوہ ہے لیکن۔ایک بار پھر سابقہ غلطی کو دہراتے ہوئے
دنیا ۔۔۔۔۔کے ساتھ ۔۔۔جہاں۔۔۔۔کی اصطلاح لانا۔۔۔مناسب نہیں ہے۔۔۔بالکل صاحب قلم پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے عجلت سے کام لیا ہے۔۔۔۔جب کہ یہی خیال۔۔۔۔
"سارا جہاں ہے چپ اور خاموشیاں ہیں بس”
کی ترکیب میں احسن انداز میں پیس کیا جاسکتا ہے۔
ایک بات میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اب تک سارے اشعار میں ایک خیالی تسلسل نظر آیا ہے اگر چہ الگ الگ صورت حال کا احاطہ بھی کرتے ہیں۔
بحر حال تخیل کے حوالے سے حقیت کی قریب سے عکاسی کی گئی ہے جو شاعر کے کمالِ مشاہدہ کے ساتھ ساتھ ان کے بلند عزائم و حوصلوں پر دال کرتا ہے۔
مزید تخلیق کار اور قاری اختلاف رائے کا حق رکھتا ہے۔