از قلم: مسرت صوفی
طالبہ الکلیتہ السلفیہ للبنات سرینگر
تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا ہونا بھی ضروری ہے.کیونکہ تربیت کے بغیر تعلیم کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ بچے کی اخلاقی تربیت اس کا حق ہے۔
ابتدائی عمر ہی سے بچوں کی تربیت کی جائے تاکہ ان کے اخلاقی اوصاف کی بنیاد مضبوط ہو اور وہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ مقبول شخصیت کے حامل فرد بن سکیں۔ چار پانچ سال کی عمر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمر بچوں کے ذہنی، جسمانی اور بہترین اخلاقی تربیت کے لیے انتہائی اہم عمر کہلاتی ہے۔ اس عمر میں نہ صرف والدین بچوں کی ذہنی نشوونما عمدگی سے کرسکتے ہیں بلکہ ان کے رویے اور اعتماد میں بھی مضبوطی پیدا کرسکتے ہیں، یعنی یہ وہ عمر ہے جس میں آپ بچوں کو جس طرف موڑنا چاہیں موڑ سکتے ہیں۔
یہ بچوں کے اسکول جانے کی عمر ہوتی ہے اور اس عمر میں وہ معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بننے یا پھر ایک بگڑا ہوا بچہ بننے کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ اس عمر میں آپ اسے اگر اچھی اور بری باتوں کی تمیز سکھائیں گے اور اسے بتائیں گے کہ وہ کس طرح معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل کرسکتا ہے تو یہ اس کے لیے نہ صرف بہتر ہوگا بلکہ اس کی زندگی بھی سنور جائے گی۔ اسے کس طرح کے بچوں سے دوستی رکھنی ہے اور کس طرح کے بچوں سے دور رہنا ہے۔ اسے کہاں کہاں ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہے، یہ سب آپ اسے اس عمر میں سکھائیں تاکہ اس کی زندگی درست سمت کی طرف گام زن ہوسکے۔ اور جب ہم بات کرتے ہیں بچوں کی ذہنی نشوونما کی تو ظاہر ہے ہم ذہن کو ایک جسمانی عضو کی حیثیت سے سمجھ کر بات کرتے ہیں مگر ہمارا ذہن حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ذہن محض کوئی عضو نہیں تو ہم کس طرح اس کی پرورش کرسکتے ہیں؟
دراصل جب ہم اپنی صحت، خوراک اور ورزش پر توجہ دیں گے تو ہمارا ذہن بھی مثبت سوچ اپنائے گا۔ یہی ذہنی نشوونما ہے کہ وہ اچھا سوچے اور اچھا انداز اپنائے۔ یاد رکھیں، مسلز کی بہتر نشوونما سے زیادہ مشکل ذہن کی نشوونما ہوتی ہے۔ بچہ انفرادی طور پر، جذباتی طور پر، جسمانی طور پر اور معاشرتی طور پر تکمیل کے مراحل میں ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اسے ہر مرحلے پر آپ کی بھرپور رہنمائی حاصل ہو اور اس کا طرز زندگی مثبت ہوتا جائے۔
بچے کی اخلاقی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ اسے سچ بولنا، بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں سے محبت کرنا، مل جل کر کھیلنا، ایمان داری سے فیصلہ کرنا، دوسروں کی مدد کرنا، صفائی کا خیال رکھنا اور بڑوں کی بات ماننا سکھایا جائے۔ یہ باتیں زندگی بھر اس کو ایک اچھی زندگی گزارنے میں مدد فراہم کریں گی۔ بچے کی اخلاقی تربیت میں کھیل بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچے کے ذہنی رحجان کے مطابق اسے کھیل کھیلنے دیں۔ کھیل اسے دنیا بھر کے کسی بھی کلچر میں اس بچے کی تفریح کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ کھیل بچے کو دوسرے بچوں کے ساتھ اپنا رویہ کا اظہار کرنا بھی سکھاتا ہے۔ مل جل کر کھیلنا، لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرنا اور درست فیصلہ کرنا۔ بچے کھیل ہی سے سیکھتے ہیں۔
قصہ مختصر، تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر تربیت بھی تعلیم کا حصہ ہے جس کے بغیر تعلیم کا مقصد ادھورا رہ جاتا ہے، اس لیے تعلیم کے ساتھ مناسب عمر میں تربیت دینا ضروری ہے۔