اُمیدِ روشنی تھی عیاں تاریخی ہوئی
ڈھل گیا اُجالاظالم کی آمد جو ہوئی
خوف و ہراس میں وادیِ جنت دہک اُٹھ لبےبس
مظلوم پہ جب ظلم کی آندھی اُٹھی
اے خُدا ختاۓکیا تھی جو آنکھیں جُکی
کہنے کو ہیں انسان پر قدر جانور سی ملی
بے بسی کے عالم میں دعاؤں کا سہارا لیا
قبولیت کے لئے برسوں کا ہمیں انتظار ملا
ہیں انتظار تجھے اُزیر بادِ نوبہار کا
کوچ کرگئے کئی جوان اسی انتظارمیں
اُزیر نثار
ریڑونی کولگام