ریحانہ کوثر
میری گرچہ اس سے کوئی بات ہوتی
حسین ہوتی اس سے ملاقات ہوتی
ستم گر بتا تو کہاں پر ہماری
ملاقات ہوتی تو اک جھات ہوتی
نہ تم ہی رولاتے نہ ہم اتنا روتے
آنکھوں سے میری نہ برسات ہوتی
اگر مجھ کو دیتے دعائیں میری جاں
دعا تیری میری مصافات ہوتی
اگر آ کے ملتے مجھے آپ جاناں
نہ دن ایسا ہوتا نہ یہ رات ہوتی
تجھے میں بتاتی غزل ہوتی کیا ہے
"اگر آپ سے پھر ملاقات ہوتی
اگر آپ ملتے مجھے پھر بتاؤ
تمہاری ریحانہ سے کیا بات ہوتی