عابد حسین راتھر
ای میل: [email protected]
موبائیل نمبر : 7006569430
کبھی کبھار ہماری زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہیں کہ ہم کسی کی چاہت اور محبت میں اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر، اپنی عزتِ نفس کو اپنے پاؤں تلے روندھ کر خود کو کسی دوسرے انسان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہے اور خود کو اس کے حوالے کر کے اُس پر اپنی قسمت کا فیصلہ چھوڑتے ہے۔ یہ زندگی کا کمزور ترین مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ زندگی کے اس مرحلے میں انسان دل کے ہاتھوں بےبس ہوتا ہے۔ سامنے والا شخص چاہے کتنی ہی بے رخی اختیار کیوں نہ کرے لیکن ہم بار بار ایک بے شرم گداگر کی طرح اس کے در پر اپنی چاہت کی گداگری کرتے ہے۔
اُس کی لاپرواہی کے باوجود بھی ہم لاکھ کوشش کرتے ہے کہ ہم اُسکی توجہ کا مرکز بنے۔ لیکن ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ شخص ٹس سے مس نہیں ہوتا ہے۔ زندگی کے اس دور میں ہمارے جذبات ہماری عقل اور ہمارے شعور پر حاوی ہوتے ہیں اور ہم جذبات میں آکر کوئی بھی غلط قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوتے ہے اور اس بات کی بلکل پرواہ نہیں کرتے ہے کہ ہمارے اس غلط قدم سے یا تو ہماری اپنی ذات کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا پھر اس انسان کی زندگی پر برا اثر پڑ سکتا ہے جسکی چاہت میں ہم دنیا کو بھلائے بیٹھے ہوتے ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس معاملے میں دونوں کی کوئی خطا نہیں ہوتی۔
چونکہ دونوں شخص اللہ کی مخلوق ہوتے ہیں لہذا دونوں دوسرے پر دھیان دینے کے بجائے اپنی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں جو تمام انسانوں کی فطری خصلت ہے۔ ایک اگر اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے تو دوسرے کے لیے یہ ایک عام سی بات ہوتی ہے۔ اگر ایک کے لیے دوسرا انسان اُسکی ساری دنیا ہوتا ہے تو دوسرے کے لیے وہ انسان دنیا کا ایک عام فرد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ نے انسان کی ساخت، اُسکی خصلت اور اُسکی بناوٹ ایسی بنائی ہے کہ وہ چاند پر اپنے قدم جماسکتا ہے، ہوا میں اڈاں بھر سکتا ہے لیکن دوسرے انسان کے دل کے احوال سے واقف نہیں ہوسکتا اس کے برعکس اللّٰہ ہی ایک واحد ذات ہے جو ہمارے دلوں کے احوال اور ہمارے دلوں میں چھپے بھیدوں سے واقف ہے۔ اگر انسان بھی دوسرے انسانوں کے دلوں کے احوال سے واقفیت رکھنے کی قوت رکھتے تو دنیا میں شاید ہی کسی انسان کی چاہتیں ضائع ہوتی۔
اس کے برعکس اگر ایک انسان اپنی چاہتیں اور اپنی بے لوث محبت کسی شخص پر نچھاور کرنے کے بجائے یہ چاہتیں اور محبت اُس کے خالق پر نچھاور کرے تو اُس کو کبھی بھی ذلت اور رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اپنے دل کو انسانوں کا بت خانہ بنا کر انسانوں کی پرستش کرنے کے بجائے اگر وہ خالق کائنات کی محبت دل میں رکھ کر اُسکی عبادت کرنے کا جذبہ رکھے گا تو یہ ایک نا ممکن بات ہے کہ اس کو اپنی چاہتوں کا سلہ نا ملے۔ اللّٰہ کی چاہت دل میں رکھنے کا معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ یہاں جسکی ہم چاہت کر رہے ہوتے ہیں وہ ذات بہت اچھے سے ہمارے دلوں کے احوال اور ہماری چاہتوں سے واقف ہوتی ہے اور اس کے ہاں ہر معاملے میں انصاف کیا جاتا ہے۔
لہذا یہاں بلا شبہ ہماری چاہتوں کی قدر ہوتی ہے اور ہمیں ہماری چاہتوں کا انعام دیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انسان جذبات کے بہکاوے اور انسانی محبت کی لالچ میں آکر خود کو کسی دوسرے انسان کی چاہت میں رسوا کر دیتا ہے۔ اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی برباد کرتا ہے۔ انسان کی چاہت میں وہ اپنے دل کا سکون بھی کھو بیٹھتا ہے اور اپنی زندگی کو بربادی کے دہانے پہ لا کے کھڑا کر دیتا ہے۔ اس کے بمقابلہ اللّٰہ کی چاہت دل کے سکون کا باعث بنتی ہے اور اللہ کی محبت ہی دنیاوی اور اخروی زندگی کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ لہذا انسان کو ہمیشہ چاہیے کہ کسی انسان کی اندھی چاہت میں اپنی زندگی خراب کرنے کے بجائے اللّٰہ کی محبت میں اپنی زندگی صرف کر کے اپنی زندگی کو کامیاب بنائے۔ انسان کو ہمیشہ اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے اور ہمیشہ اپنی عقل اور شعور سے کام لے کر زندگی کا اصلی مقصد سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں کو اپنی محبت کا گھر بنا کر ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین
مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔