ازتحریر ۔وسیم احمد گنائی
گنڈجیانگیر سوناواری
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے ۔کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جو بھی حکم صادر ہوتا ہے ۔وہ مدلل اور پروقار ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے جو بھی حقوق اور قدرت قانون ہوتا ہے ۔وہ ہمیشہ انسانوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے ۔آدم سے لیکر آج تک جو بھی قومیں اور ان قوموں میں رہنے والے لوگ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر کچھ نہ کچھ چھوڑ کے گئے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے ۔کہ کچھ لوگ اللہ کے قانون کو ماننے سے انکار نہیں کرتے ہیں ۔اور کچھ لوگ اللہ کے نظام کو ماننے سے انکار کرتے رہتے ہیں ۔
حضرت ابراہیم اور اس کے فرزند اسماعیل نے خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی اور تمام مسلمانوں کے لیے اس جگہ کو مقدس اور پاک و منازہ بنایا ہے ۔اس کے علاوہ مدینہ منورہ کا شہر بھی تمام شہروں سے افضل ہے ۔یہ بات سبھی مسلمانوں میں اخز ہو چکی ہے ۔کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمام پیغمبروں سے افضل اور بالا تر ہے ۔اور نبی صلی اللہ علیہ و علی سلم کے لیے اللہ تعالٰی نے یہ دنیا قائم کی ہے ۔اور اس صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اس جہاں میں اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں میں محبت اور پیار بھر کے رکھا ہے ۔اور درجہ قیامت تک قائم و دائم رہے گا دور جہالیت کے زمانے میں اگر چہ لوگ اپنے بچیوں کو زندہ دفن کیا کرتے تھے ۔
لیکن ان لوگوں میں مقدس جگہوں کا کافی احترام تھا ۔محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں خانہ کعبہ اور مسجد اقصٰی کو سبھی لوگ خوش اسلوبی اور خوش دلی سے سے اپنا فرض نھباتے تھے ۔کیونکہ وہ جانتے تھے ۔کہ ان پاک جگہوں کا درجہ باقی جگہوں اور مسجدوں سے کافی افضل اور بلند ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالٰی نے جب پیغمبری کا درجہ عطا کیا ہے ۔اس کے فورا بعد رب کی طرف سے وحی نازل ہوا کرتی تھی ۔چونکہ پیغمبری کا درجہ اس سے پہلے باقی خاص اشخاصوں کو دیا گیا ۔لیکن اعلٰی اور بلند ترین درجے صرف حضور صلی اللہ علیہ و سلم رہے ۔اور قیامت تک قائم و دائم رہے گا ۔
اگر چہ خانہ کعبہ اور مسجد اقصٰی پہلے سے بنی ہوئی تھیں ۔لیکن ان دو مقدس جگہوں کا احترام اس زمانے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ساتھ پرہیز گار لوگوں میں بھی دل دماغ پر چھایا ہوا تھا اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج کے لیے بلایا ۔اور اس کے لیے باطنی انتظامات کر کے رکھے تھے ۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رات خانہ کعبہ سے لیکر مسجد اقصٰی یعنی مسجد حرام تک اپنا سفر کیا ۔
اور مسجد اقصٰی کے سحن میں تمام پیغمبروں کو اپنے اپنے تبلیغ سے نوازہ اور ان تک اپنا پیغام پہنچایا ۔کیونکہ اللہ جانتے تھے ۔کہ خانہ کعبہ کے ساتھ ساتھ مسجد اقصٰی بلند درجے کا حاصل ہے ۔اور اس کی قدر و قیمت کیا ہے؟ وہ تمام پیغمبر جانتے تھے ۔مختلف دورہ میں مسجد اقصٰی کو لوگوں نے عزت وقار سے نوازہ ۔لیکن پچھلیے نصف صدی سے لوگوں نے انتشار ہوئے ہیں ۔اور مزہب کے بنیاد پر لوگوں نے اپنے زہنوں کو کھول کر کے رکھا ہے ۔اور مقدس جگہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدے کو نچوڈ کر رکھا ۔
اللہ تعالٰی اس بات کو قطعا اجازت نہیں دیتا ۔کہ کسی بھی قوم میں کسی اور مزہب کا کوئی تعمیری، سیاسی اور مذہبی شے موجود ہو ۔ان چیزوں کی حفاظت اس قوم پہ صادر ہوتی ۔کہ وہ ان کی رکھوالی نگاہ داشت کرے۔دنیا میں مختلف اس وقت ترقی کے منزلوں پے کھڑے ہو چکے ہیں ۔اور ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں سے بلند اور انتشارات پیدا ہو چکے ہے ۔کہ ان کا ملک دوسرے ملکوں سے بلند اور اعلی ہو ۔خاص کر لوگوں میں مذہبی شکوے آج کل زوروں پر ہیں ۔خاص کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔کہ کس طرح مسلمان قوم برباد ہو جائے ۔
مسجد اقصٰی کو نشانہ بنانے کی کوشش پہلے سے ہو رہی ہیں ۔کیونکہ یہودی کی اصل policy یہی ہے کہ مسلمان آپس میں تقسیم ہو جائے ۔پھر یہ لوگ کمزور ہو جائے گے ۔اور ان کو قرآن سے دور رکھنے کی کوشش بھی ہو رہی ہیں ۔کہی حد تک یہودی کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔اصل میں یہودوں کو دشمنی ہمارے پیغمبر سے ہیں ۔اسی لیے یہ لوگوں کو قتل و غارت کرنے میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہے ۔یہودی لوگوں کا یہی مقصد ہے ۔کہ مسجد اقصٰی ختم ہو ۔اور ان کا یہودی نظام قائم رہے ۔
دراصل اسرائیل یہ نہیں چاہتے کہ فلسطین میں مسلمانوں کا دبدبہ قائم رہے ۔اور مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد یعنی مسجد اقصٰی موجود رہے ۔کیوں اس قسم کی حرکتیں یہ لوگ کرتے رہتے ہیں ۔کیوں یہ لوگ حد پار کر رہے ہیں ۔زندگی گزارنے نے کا حق سبھی طبقوں لوگوں کو اللہ تعالٰی نے پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ دیا ہے ۔اب کیوں لوگ ایک دوسرے کا حق چھین لیں گے ۔فلسطین میں لوگوں کو زندہ رہنے کا پورا حق ہے ۔اور مسجد اقصٰی قائم رکھنے کا حق اللہ تعالٰی اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے سے دے رکھا ہے ۔جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حق دے رکھا ہے ۔پھر دوسرے لوگوں کی کیا مجال ہے۔کہ وہ ان لوگوں کا حق چھین لیں ۔یہ ظلم و ستم اب بند ہونا چاہیے ۔اور اپنے اپنے مزہبوں کی پیروی کرو ۔کیوں دوسرے مزہبوں کی عمارتوں ،خانکاہوں، درسگاہوں ، مسجدوں، اور اعلی درجے کی بلند مسجدوں کو کیوں برباد کرنا چاہتے ہو ۔روک لو اب یہ ظلم و ستم ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جب اللہ کا قہر ان ظالم لوگوں پر اس طرح برسے گا پھر کوئی بچانے والا نہیں ہوگا ۔