تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم ہائر سکینڈری پرے پورا
رابطہ نمبر:6005465614
[email protected]
کبھی بولو تو شہروں کے مکاں بھی بات کرتے ہیں
تمہارے ذہن میں تو صرف قصبے کی حویلی ہے
کبھی سو چا خُدا کے سامنے اک روز جانا ہے
ترا مذہب غزل ہے اور غزل میں بت پرستی ہے
نکاح فقط ایک رسم نہیں بلکہ ایک مستقل عبادت ہے ، جس عبادت کو انجام دے کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ نکاح وہ بندھن ہے جس سے بدکاری کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ نکاح اس احساس کا نام ہے جس احساس کو دل میں بساۓ دو اجنبی لوگ ایک دوسرے کا سہارا بن جاتے ہیں۔ نکاح وہ حکم ربانی ہے جس کی ادائیگی سے روحانی امراض سے نجات مل جاتی ہے۔ نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جس سے بے حیائی، عریانی اور فحاشی کے مراکز پر تالا لگ جاتا ہے۔
تسلسل نسل کی جائز راہ بھی صرف نکاح ہے۔ نکاح کے فوائد میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان کا نفس پاک اور آنکھوں کو جھکاؤ حاصل ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کو یک طرفہ رکھ کر متنازع شخصیت "ملالہ یوسف زئی” کا بیان نکاح کے متعلق حیران کن ہے۔اولاً ملالہ یوسف زئی نے اپنا وجود مشکوک بنا ڈالا، یہ کوئی تنقید نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اگر نکاح بے مقصد ہے تو ملالہ یوسف زئی کا وجود بھی قابل تنقید ہے۔ وہ جس رشتہ کی وجہ سے دنیا میں آئی وہ بندھن انکے والدین کے درمیان نکاح کا ہی تھا۔ثانیاً ملالہ یوسف زئی کے جہالت انگیز بیان سے ملالہ کے والدین کا رشتہ بھی مشکوک ہوجاتا ہے اور مشکوک بنانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ان کی اپنی بیٹی "ملالہ یوسف زئی” ہی ہے۔ ثالثاً ملالہ کے بیان سے واضح ہے کہ وہ عریانی اور فحاشی کے مراکز کا دروازہ ملت کی بیٹیوں کے لئے کھولنا چاہتی ہے۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور جب کوئی حد تجاوز کرجاۓ تو فساد برپا ہوجاتا ہے۔
خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے رب کائنات کے فقط نکاح کے طریقے کو حلال ٹھہرایا ہے لیکن جب انسان اپنے حدود سے باہر نکلے تو وہاں روحانی امراض کے ساتھ ساتھ طبی امراض بھی جنم لیتے ہیں مثلاً جیسے HIV AIDS وغیرہ۔ ملالہ یوسف زئی کے بیان کے مطابق وہ خود بھی نہیں جانتی کہ لوگ نکاح کیوں کرتے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ ملالہ یوسف زئی بشری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے نکاح کو ضروری نہیں سمجھتی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملت کے اندر Pornography عام ہو جائے گی، جس ذلت کے اندر ملت کے نوجوان ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کے بیان کے مطابق وہ لوگوں کو الحاد (Atheism) یعنی دہریت کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ کیونکہ نکاح شعائر اسلام میں شامل ہے۔ رابعاً اپنے بیان کے ذریعے ملالہ نے علانیہ ملت کی بیٹیوں کو liberalism اور feminism کی دعوت دی۔ ملالہ کے زہریلے الفاظ اس بات کی عکاسی کررہے تھے کہ الفاظ کسی اور کے ہیں اور زبان ملالہ کی، ایسا بھی ممکن ہے کہ ضمیر کا سودا ہوچکا ہو۔
مقاصد نکاح
(۱) حکم ربانی———-
اہل ایمان کے لئے اتنا کافی ہے کہ نکاح کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ، "تم سے جو مرد عورت بےنکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہونگیں تو اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ".(القرآن) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہے اسے شادی کر لینی چاہیئے ، کیونکہ ادی نگاہوں کو پست رکھنے والی اور شرم گاہوں کی کرنے والی ہے ، اور جس کو طاقت نہ ہو اسے روزہ رکھنا چاہیئے ، اس لیے کہ روزہ اس کی قوت و شہوت کو توڑنے والا ہے”.(صحیح بخاری) اہل ایمان حکم واضح ہوجانے کے بعد مخالفت نہیں کرتے۔
(۲) فساد کا خاتمہ——–
ملالہ یوسف زئی کو سوچنا چاہیےکہ نکاح پر تنقید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تکمیل خواہشات ایک biological need ہے جو کسی سے بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی کے بیان کے مطابق ماں، بہن، بیٹی اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے بھی محفوظ نہیں رہے گی جیسا کہ مغربی ممالک میں یہ ناسور کافی تباہی کرچکا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن اور راضی ہو تو اس سے اپنی بچیوں کی شادی کردو ، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ فساد ہو گا ، اور زبردست طریقہ پر فساد اور برائی پھیلے گی”.(سنن ترمزی، سنن ابن ماجہ)
(۳) بدنگاہی کا خاتمہ——–
ملالہ یوسف زئی کے بیان کو تسلیم کرلیا جاۓ تو عورت فقط ایک نمائش کی چیز بن کے رہ جائے گی۔ حقوق نسواں کی بات کرنے والے درحقیقت خود ہی عورت کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ شرعی تعلیمات نے عورت کو عزت دی، وقار دیا، عظمت دی، بلندی سے سرفراز کیا لیکن یہ بات اسلام دشمن لوگ برداشت نہیں کرسکتے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے”.یعنی نظرکو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے۔
(۴)فطری راحت و سکون————–
دارالعلوم دیوبند کی official website سے یہ سطور رقم کی جارہی ہیں کہ، "انسان کسی قدر آرام طلب واقع ہوا ہے اور فطری طور پر راحت وسکون کا محتاج ہے اوراسی طرح فطری جذبات اورانسانی خواہشات کو پورا کرنے کا مزاج رکھتا ہے۔ راحت و مسرت سکون و اطمینان اس کی فطرت میں داخل ہیں۔ انسان کو اپنے مقصد تخلیق میں کامیاب ہونے عبادت میں یکسوئی و دلچسپی پیدا کرنے بندوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے اور اپنے متضاد جبلی اوصاف کو صحیح رخ پر لانے کے لیے نکاح انسان کے حق میں نہایت موٴثر ذریعہ اور کارآمد طریقہ ہے۔ اللہ نے نکاح میں انسان کے لیے بہت سے دینی ودنیاوی فائدے رکھے ہیں۔ مثلاً معاشرتی فائدے خاندانی فائدے اخلاقی فائدے سماجی فائدے نفسیاتی فائدے غرضیکہ فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے”.
(۵) ہمسفر کی ضرورت————–
ملالہ یوسف زئی کے کہنے کے مطابق اگر ہمسفر درکار ہے تو نکاح کی کیا ضرورت؟ دراصل وہ کہنا یہ چاہتی ہے کہ درندوں اور حیوانات کی طرح بغیر کسی رکاوٹ کے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں ہی راحت میسر ہے۔ یہ وہ شیطانی دھوکا ہے جس نے مغربی ممالک کو بدکاری کے طوفان میں غرق کردیا۔ ملالہ کی سوچ ایک پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کے بالکل خلاف ہے۔ انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا“ وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔ (القرآن)
(۶) رہبانیت سے تحذیر——————-
یہ بات ایک واضح حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے شادی کرنے کو غلط قرار دیا ہے اور عورت سے دور رہنے کا درس دیا ہے اور روحانی ترقی کے لئے ایسا کرنا ناگزیر بتایا ہے آخر کار وہی لوگ انسانی خواہشات اور فطری جذبات سے مغلوب ہوکر طرح طرح کی جنسی خرابیوں اور اخلاقی برائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں حتیٰ کہ فطرت کے خلاف کاموں تک میں ملوث ہوئے ہیں اور برے نتائج اور تباہ کن حالات سے دوچار ہیں۔ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی کچھ سطور یہاں رقم کررہا ہوں کہ، "رہبانیت کا تصور آپ کو عیسائیوں میں بھی نظر آئے گا اور ہندؤں میں بھی۔ دنیا کے اور بھی مذاہب ہیں جیسے بدھ مت جین مت ان میں بھی یہ تصور مشترک ملے گا کہ نکاح اور گھر گرہستی کی زندگی روحانیت کے اعتبار سے گھٹیا درجہ کی زندگی ہے۔ اس اعتبار سے ان مذاہب میں اعلیٰ زندگی تجرد کی زندگی ہے۔ شادی بیاہ کے بندھن کو یہ مذاہب کے بعض لوگ روحانی ترقی کے لئے رکاوٹ قرار دیتے ہیں مرد ہو یا عورت دونوں کے لئے تجرد کی زندگی کو ان کے ہاں روحانیت کا اعلیٰ و ارفع مقام دیا جاتا ہے نکاح کرنے والے ان مذاہب کے نزدیک ان کے معاشرہ میں دوسرے درجہ کے شہری (Second rate Citizens) شمار ہوتے ہیں چونکہ شادی بیاہ میں پڑکر انھوں نے اپنی حیثیت گرادی ہے“۔
(۷) ہم جنس پرستی سے بیزاری————–
فطرت سلیمہ کبھی برائی، بے حیائی، فحش و منکرات کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے، بلکہ ان سے باز رہنے اور ترک کی تلقین کرتی ہے۔ دین اسلام نہایت عالی و پاکیزہ مذہب ہے، جو مکارم اخلاق، اعلی صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور افراد و اشخاص کی جسمانی، روحانی، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی اپنے بیان کے ذریعے علانیہ ہم جنس پرستی کا لباس پہن کر فعل قوم لوط کی دعوت دے رہی جو کہ ملعون فعل ہے۔فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جس کو قوم لوط جیسا عمل کرتے پائو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔” (جامع ترمذی)
(۸) ناجائز تعلقات سے بیزاری————-
عصر حاضر میں ملت اسلامیہ جن فتنوں کا سامنا کررہی ہے ان میں دوستی کے نام پر ناجائز تعلقات کا قیام بھی ہے جو کہ نجس فعل ہے۔ نکاح انہیں فتنوں سے ہماری حفاظت کرتا ہے۔ عصر حاضر میں boyfriend اور girlfriend کے ریت کو اس طرح پروان چڑھایا جارہا ہے جیسے کوئی قلعہ فتح کرنا ہو۔ شراب اگر دودھ کے برتن میں رکھا جائے اس کی خصلت پھر بھی تبدیل نہیں ہوگی۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، ” جو فرمایا:عورت پانچ وقت کی نماز پڑھتی رہے، وہ رمضان کے روزے رکھ لیا کرے اور اپنی آبرو کی حفاظت رکھے اور اپنے خاوند کی تابعداری کرے تو ایسی عورت جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے”.(صحیح ابن حبان) اللہ تعالیٰ اس عورت کو پسند کرتا ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ تو محبت اور لاگ کرے اور غیر مرد سے اپنی حفاظت کرے۔
(۹) نکاح میں صنف نازک کی حفاظت———-
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے قیامت کے روز ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔” (صحیح الجامع) نکاح کے ذریعے اسلام نے مرد کو عورت کا نگہبان بنادیا۔ اب سؤال یہ ہوسکتا ہے کہ کیا عورت اپنی حفاظت آپ نہیں کرسکتی؟ اس سؤال کا جواب عورت خود دے لیکن انصاف کی میزان قائم کرکے۔ اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، ” حقوق نسواں کے نام پر عورت کو عریاں کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور لاعلم افراد اسے آزادی سمجھتے ہیں، یہ عورت کی آزادی نہیں بلکہ اس کی بربادی ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ، "اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے۔‘‘(القرآن)
(۱۰) نبوی ﷺ وصیت یاد رکھیں————-
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "اپنے سر کو لوہے کہ کنگن سے زخمی کرنا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے‘‘۔(وسندہ صحیح) واضح رہے کہ نا محرم خواتین سے ہاتھ ملانا تمام فقہاءِ کرام کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاہے کہ اﷲ کی قسم! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں۔ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو خیرالبشرہیں اور قیامت کے دن اولاد آدم کے سردار ہوں گے، ان کے مبارک ہاتھوں نے کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں تو دوسرے غیرمحرم مردوں کے لیے کس طرح اجنبی عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا جائز کیسے ہو سکتا ہے؟
(ج) جو عورت مرد کے لیے حلال نہیں ہے اسے ہاتھ لگانا بہت سنگین جرم ہے جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر آدمی کے سر میں نوک دار لوہے سے سوراخ کر دیاجائے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔
Marry a man who fears Allah so he will treat you right because of his fear of Allah.
The Successful marriage is not when you can live in peace with your wife, but when you can’t live in peace without her.
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں جدید فتنوں سے محفوظ رکھے۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین