فہیم الاسلام
طالب علم شعبہ سیاسیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
[email protected]
آج بہت افسوس کے ساتھ ،اپنے قلب کو تھام کے اس قلم کو تھر تھراتے ہوئے ہاتھوں میں لے کے اور کاغذ کے ٹکڑوں کو اپنی ترستی اور اشک بھری آنکھوں سے دیکھ کے اس بات کو تحریر کر رہا ہوں کہ جہاں پوری دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہو رہی ہے اور جہاں ہر ملک اول درجے پہ اپنے ملک کی ٹیکنالوجی کو لینا چاہتا ہے، جہاں ہر کوئی قوم چاند کے سفر طے کرنے کی سوچ رہی ہے ،جہاں انسانوں کی آسانی کیلۓ ہر کوئ چیز مہیا ہے وہی انسانوں کی جانوں کی کوئی قیمت باقی نہیں رہی۔
وہاں اب انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک کیا جا رہا ہے۔آسائش کے با وجود بھی انسان چین و سکون سے محروم ہے اور یہی انسان دنیا کی معمولی سی ناکامیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کر دیتا ہے اور انسان اس عظیم نعمت کو بے دردی کے ساتھ ہلاک کر دیتا ہے۔ زندگی میں معمولی سی ناکامیوں سے بچنے کی وجہ سے اور دیگر مصائب و آلام کی وجہ سے خودکشی کرنا بزدلی ہے۔خودکشی ایک غیر انسانی،مذہبی اقدار کے منافی انتہا درجے کی بزدلی ہے۔یہ اللہ کے دین اور اسکے توکل کے خلاف ایک گھٹیا حرکت ہے۔اسلام سمیت دیگر مذاہب بھی خودکشی کو غلط حرکت مانتے ہیں ۔
اللہ تعالی نے ایک انسان کو تمام نعمتوں سے افضل ترین نعمت اس کی زندگی دی ہے اور یہ باقی تمام نعمتوں کا اثاثہ ہے اللہ تعالی اپنے مقدس کلام میں فرماتے ہیں کہ میں نے ایک انسان کو اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنایا یعنی کہ وہ تمام دیگر مخلوقات سے بالاتر ہے گویا اس سے یہ مراد ہے کہ اس کی ہر ایک چیز اور خصوصاً اس کی جان بہت ہی زیادہ قیمتی ہے کیونکہ ایک انسان کے لیے یہ دنیا بنائی گئی ہے لیکن ایک انسان اور خاص کر مسلمان اس دنیا کے لئے نہیں بلکہ آخرت کے لیے بنایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اپنی جان کا تحفظ کرنا فرض بنتا ہے کہ وہ دنیا میں اس امانت کی حفاظت کرے اور اس دنیا میں اللہ تعالی کے احکامات کو مانے اور ان تمام احکامات کو بجا لا کر اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے حقیقی مالک سے جا ملے۔ اس لیے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان کو دنیا میں نے اپنی عبادت کے لیے بھیجا ہے تو گویا اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی عارضی ناکامیوں کی وجہ سے ایک انسان کو بزدلی کا ثبوت نہیں دینا چاہئے بلکہ خدا پر توکل کرنا چاہیے اور اپنی تقدیر کو دل سے ماننا چاہیے اور اس دنیا میں اسی طریقہ سے زندگی بسر کرنی چاہیے جس طریقے سے اللہ تعالی نے اپنے مقدس کلام قرآن مجید میں فرمایا ہے۔
اس دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہے ہر کسی مذہب کے سامنے اپنے ہاتھوں سے خود اپنی جان کو ہلاک کرنا بہت ہی سنگین جرم مانا جاتا ہے کیونکہ ہر کسی مذہب میں زندگی کا یہی ایک نقطہ نظر ہے کہ یہ اپنے خالق کی دین ہیں اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے اس لیے اللہ تعالی نے بار بار قرآن میں فرمایا ہے کہ آپ اپنے آپ کو اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور جو یہ لوگ کرتے ہیں وہ بہت ہی بڑا ظلم کرتے ہیں اور عنقریب جو یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمیں ان تمام چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے آج سوسائٹی میں اور خاص کر وادی کشمیر میں ہماری سامنے دن بدن کتنے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جہاں پہ لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں چند روز کی ناکامیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اور اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے اور اس گناہ سے ہم سب کو بچنا چاہیے ہم دیکھتے ہیں کہ آئے روز نوجوان اپنی جوانی کے اس دور کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں لیکن کاش کہ نوجوانوں کو پتہ چلتا اس جوانی میں ہمیں کس طریقے سے اللہ تعالی کے دین کو آگے لے کے جانا ہے اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاک کر دیتے ہیں وہ دنیا میں بھی ناکام ہوجاتے ہیں اور آخرت میں بھی ناکام ہیں۔
قرآن پاک و حدیث نبویؐ میں متعدد مقامات میں وارد ہوا ہے کہ اہل ایمان کو موت کی دعا نہیں کرنی چاہیے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ مصائب و مشکلات اور بیماری سے دوچار ہونے کے بعد اسلام، انسان کو خودکشی کی اجازت دے۔ اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول پرنور ﷺ نے فرمایا: ’’ اﷲ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔‘‘ انسان کتنا ہی متقی اور پرہیزگار ہو اور کتنی ہی نیکیاں اس نے کمائی ہوں اور بھلائی کے کام کیے ہوں اگر وہ دنیاوی پریشانیوں اور ناکامیوں سے دوچار ہو کر یہ اقدام کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
نہ سمجھا اپنے وجود کو، نہ خالق حقیقی کو
امانت میں خیانت کی، میں بولوں کیا اس بےبسی کو
تو افضل تھا،امامت تھی،اشرف المخلوقات کا تاج تھا
تو پھر بھی خام رہ گیا اسم مسلمان تو بس نام تھا
(فہیم الاسلام)
اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ ہم عارضی پریشانیوں کی وجہ سے جلد بازی نہ کرے کیونکہ ناکامیاں تو جلدی دفع ہوجاتی ہے یا کبھی کبھار وقت بھی لیتی ہے لیکن آخر کار یہ دنیا فانی ہے یہاں پہ ہر کوئی چیز چاہے کامیابی ہو یا ناکامی ہو کو فناہ ہونا ہے ۔اس لیے اپنے آپ کو خوشحال رکھے اور اطاعت اللہ اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی زندگی کو منور کرے کیونکہ جو لوگ اس فعل میں ملوث ہے اللہ تعالی ان پر وعید فرماتا ہے اور وہ سخت عذاب میں مبتلا ہو جائیں گیں۔ہم سب کی یہی ذمہ داری بنتی ہے کہ جو لوگ بہت پریشان رہتے ہوں ہمیں ان کو تربیت کرنی چاہیے اور معاشرے میں اس قسم کے آلات کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ آج نوجوانوں میں منشیات کی لت اور دیگر ایسی چیزیں پائی جاتی ہے جن کی انتہا آخرکار خودکشی ہے۔ ہمیں سماج میں ایک ذمہ دار شہری ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سماج میں ایسے آلات کو ختم کرے اور نوجوانوں کو اور خاص کر پورے سماج کو خوشحالی کی طرف گامزن کرے۔