عاقب شاہین پلوامہ
اگر ہمہیں پڑھنے سے یا سننے میں یہ ملتا ہے کہ اسرائیل کو 73 برس ہی گزرگیے ہیں لیکن فلسطین میں اسے بسانے کی کوشش 200سال پرانی ہیں اور یہودی صیھونی ریاست بنانے کی پیش کش فرانسی ڈکٹیٹر نیپولین بونا پارٹ نے 1799میں کی تھی.
1882میں فلسطینی زمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی ہے اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر جمع کردیا گیا.
جنگ اول عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ فرانس نے مشترق وسطی کے معتد ممالک پر کنٹرول 5 حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا 1915میں برطانوی کا کبینہ الکان نے تجویز پیش کی کہ یہودیوں کا ملک بنایا جایا اور 1922میں عالمی ارادے بیک آف نیش نے بھی فلسطینی سرزمین پر صیہونی ریاست کی منظوری دی.
اور جنگ عظیم دوم world war 2nd میں ہی برطانوی حکومت نے پورپ کے مختلف ممالکوں سے یہودیوں کو فلسطین منتقل کررہا ہے اس وقت بھی مظلوم فلسطینیوں نے مظاہرے کیے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا.
1936میں برطانوی حکومت نے فلسطین کے سرزمین کو تقسیم کرنے کے لئے پییل کمشن(peel (commissionکا قیام کیا اور جس نےعربوں کی ریاست پر صیہونی ریاست قائم کرنے کی تجویز دی تھی اور امریکہ سمیت اس وقت کی دیگر بڑی ریاستون کی حمایت حاصل کی۔اور جب ان ملعون یہودیوں نے وہاں قتل وغارت کے میدان سجائے اور ان کے مخالف حرکتہ المقاویتہ الاسلامیہ یعنی حماس کا وجود 1987میں شیخ احمد یاسین نے رکھی جن کو اسرائیل نے 2001 میں شہید کیا ۔یہودیوں کا کام ہی خون خرابہ ہے ان کی تاریخ قتل وغارت سے بھری ہے۔قرآن مجید نے جہاں یہود کی خرابیوں کا زکر کیا وہاں کئی بار انبیاہ علیہ السلام کے قتل کا بھی تذکرہ کیا ہے.
یہودیوں نے بلا مبالغہ سینکڑوں انبیاء علیہم السلام کو تہ تیغ کیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کی سازش میں بھی یہودی شریک تھے۔ اور اس وقت یہودیوں کے علماء نے میسح علیہ السلام کے قتل ہونے پراجتماع کیا تھا۔
ان معلون یہودیوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بار قتل کرنے نے کی سازش کی الیعاذ باللہ تعالی۔
ایک بار رسول صلی اللہ علیہ وسلم گلی سے گزر رہے تھے تو اوپر سے بھاری پتھر پھینک کر ہلاک کر نا چاہا۔ ایک بار کھانے میں زہر کھلانا چاہا ایک بارجنگ سے سے واپسی پر گیرے میں لےکر شہید کرنا چاہا مگر اللہ تعالی نے ہر بار وحی کے ذریعے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا۔
یہودیوں کی کتب میں غیر یہودیوں کا مال و جان عزت و آبرو عظمت عافیت صباح قرار دیا گیا چنانچہ یہودیوں کے مذہب میں ہے کہ وہ جب چاہے دوسرے اقوام کے لوگوں کو خون کی ہولی کھیلیں.
اور جب چاہے دوسرے مذہب کے لوگوں کے مال حڑپ کریں اور ان کی دولت پر ناجائز قبضہ کرلے.ان کو اپنے وطن سے نکال کر ان کو اپنے گھروں سے بےگھر کر دیں اور یہی وہ فلسطین میں کر رہے ہیں.
چار نسلوں سے مسلسل قتل کرتے آرہے ہیں عورتوں بچوں پر بمباری کر رہے ہیں۔
ہائے! مسلمانوں کی بدقسمتی فلسطینیوں کے ایک گروہ نے خود ہی غلامی قبول کرلی۔مگر حماس کے شہسوار برسر پیکار ہے اور دنیا انہیں ہی دہشت گرد قرار دیتی ہیں۔
غیروں کے شکوے کیوں کریں،خود مسلمان حکمرانوں کا کیا کردار ہے اور خاص طور پر عرب حکمرانوں کا؟سینکڑوں لوگ تہ تیغ ہوجاتے ہیں اور عرب لیگ یا اسلامی سربراہی کانفرنس کے ایوان نشستاََ گفتاََ برخواستاََکے مصداق اپنا کیادھرا سمیٹ کر تواٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔کروڑو ں سے زائدکی لاگت سے ہونے والی نشستوں میں صرف حیرانی کااظہارکیاجاتاہے،قرارداد مذمت منظورکی جاتی ہے اور”عالمی برادری“کہ جس کاکوئی وجود ہی نہیں اس سے دست بستہ درخواست کی جاتی ہے کہ ہمارے مسئلے حل کرائے جائیں۔مسلمانوں کے ان سیکولرحکمرانوں کی توقعات اس طبقے سے ہیں جس کی آشیربادسے ہی یہودی افواج مسلمانوں کا کشت و خون میں صباح و مساء مصروف عمل ہیں۔نہ معلوم یہ مسلمان حکمران خود بے وقوف ہیں یا امت مسلمہ کو بے وقوف سمجھتے ہیں.
اگرمسلم حکمران اسلام اورمسلمانوں کی حفاظت کیلئے متحد نہ ہو ئے اورمیدان میں نہ اترے توتاریخ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گی۔قتیل شفا ئی نے کیا خوب کہا تھا دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی جوظلم توسہتا ہے بغاوت نہیں کرتاتاریخ گواہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی خونی تشدد، خانہ جنگی، انسانی حقوق کی پامالی یا وحشیانہ سلوک کے واقعات پیش آئے ، وہاں اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور با اثر ملکوں نے اس وقت مداخلت کی جب ان کے مفاد وابستہ تھے یا مظلوم مسلمان نہیں تھے۔
فلسطین میں فائر بندی مسلے حل نہیں ہے بلکہ اس مسلے کو ایک ہی ساتھ حل کیا جائے اور فلسطینیوں کو اپنا حق دیا جائے .اللہ تعالی ہم پر اپنا رحم کرے.