تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم ہائر سکینڈری پرے پورہ
رابطہ نمبر: 6005465614
کرے مزدورکیا گر چین سے سوئےنہ راتوں میں
کہ دن بھر کی کڑی محنت سے تھک کر ٹوٹ جاتا ہے
صداقت سر بلندی کیلئے آئی ہے دنیا میں
نذیری حق سے ٹکرائے تو آزر ٹوٹ جاتا ہے
ذہنی تناؤ کو ام الامراض کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ جن حالات سے بنی آدم گزر رہا ہے، وہ حالات اس کے ذہن پر کافی برا اثر چھوڑ رہے ہیں۔ سابقہ کئی سالوں سے عالمی سطح پر ایسے واقعات رونما ہوۓ جس سے انسانیت کا توازن بگڑ کے رہ گیا۔ سیاسی بحران ہو یا فضائی حالات، سماجی منکرات ہو یا روحانی امراض، چاروں طرف ابن آدم گھیراؤ میں ہے۔ خصوصاً گزشتہ دو سالوں سے عالم انسانیت لاک ڈاؤن میں پابند سلاسل ہے۔ کاروبار بند، روزگار کا نام و نشاں نہیں، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے شکار، مزدور طبقہ دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں، ایسے حالات میں ذہنی امراض کا پروان چڑھ جانا کوئی بعید شیء نہیں۔ذہنی امراض انسان کے دنیا و عقبی کا خسارہ کرتے ہیں۔ ذہنی تناؤ میں آکر انسان اکثر اپنی صلاحیتوں کا منفی استعمال کرکے اپنی جوانی خراب کرتا ہے۔ ایسے حالات میں اہل عقل پر لازم ہے کہ وہ بعض نسخ آزمائیں تاکہ وہ اس مشکل گھڑی میں اپنے دین و ایمان نیز اپنی صلاحیتوں کی حفاظت کرسکے۔
(۱) تنہائی سے کلی اجتناب——————-
ذہنی امراض میں مبتلا انسان کی پہلی سیڑھی تنہائی ہوتی ہے۔ ذہنی تناؤ کے شکار میں انسان اکثر تنہا رہنا پسند کرتا ہے گویا کہ وہ خود کو دنیا سے الگ تھلگ رکھنا چاہتا ہے تاکہ دنیا کی حقیقت اور اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرسکے۔ لیکن تنہائی اختیار کرنے سے نہ تو دنیا بدل جائے گی اور نہ ہی آپ اپنے فرائض سے کنارہ کشی اختیار کرسکتے ہو۔تنہائی میں انسان اکثر غلط راہوں پر چل پڑتا ہے۔ وہ سکون کی تلاش میں ایسے کام عمل میں لاتا ہے جو اسے عارضی طور پر سکون میسر کرتے ہیں لیکن پھر ان افعال کی کڑواہٹ پوری عمر برداشت کرنی پڑتی ہے۔تنہائی میں انسان کی پاکدامنی بھی محفوظ نہیں رہتی۔ باطل نے فحاشی کے ایسے ابواب کھول کے رکھے ہیں کہ انسان چار دیواری میں رہ کر ہی اپنے کردار کا سودا کرچکا ہوتا ہے۔لہذا تنہائی سے کلی اجتناب کیا جائے۔
(۲) اجتماعیت کو ترجیح دی جائے————
فرد واحد کے پر شیطانی غلبہ اور شیطانی تسلط ہوتا ہے۔ جبکہ اجتماعی زندگی میں برکت اور سکینت کی ضمانت یے۔اہل عقل پر لازم ہے کہ وہ اپنی فرصت کے لمحات کو اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ گزارے۔ اس سے ایک تو ہمارے رشتے مضبوط ہوجائیں گے ثانیاً ہمارے اذھان باطل خیالات اور ہمارے قلوب شبھات و شہوات سے کافی حد تک محفوظ رہیں گے۔ایمانی و روحانی قوت نہ ہونے پر واجب ہے کہ خلوت سے پرہیز کرکے اجتماعیت کو ترجیح دی جائے کیونکہ انسان کے ایمان کا اصل امتحان تنہائی میں ہی ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شیطان کا حملہ بھی تنہائی میں ہی زورآور ثابت ہوتا ہے۔
(۳) مشغولیت کو اختیار کیا جائے————-
ان حالات میں اہل شعور کو چاہیے کہ وہ ہر وقت خود کو کسی نہ کسی فعل میں مشغول رکھیں۔ بحیثیت ایک مسلم، ہم کبھی سست اور غافل نہیں ہوسکتے۔ ہمارے پاس رب کا مقدس کلام القرآن ہے، اگر ہمارا وقت قرآن کی تلاوت، قرآن کے معانی پر غور و تفکر میں گزرے تو ہم غلط راہوں پر چلنے سے بچ سکتے ہیں۔ کتب بینی کا ذوق و شوق خود میں پیدا کریں۔ اپنے روزمرہ کے کام کی ترتیب کے غرض سے باضابطہ ایک timetable بنائیں تاکہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔
(۴) برے ہم نشینوں سے براءت کا اظہار——–
نوجوان طبقہ غلط راہوں پر اس لئے بھی چل پڑا ہے کیونکہ صحبت صحیح نہیں۔ امیر باپوں کے عیاش بیٹے اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کم عقل شہزادے اپنا بیشتر وقت منشیات کا زہر اگلنے میں صرف کرتے ہیں۔بدکار دوست، ایک صالح فرشتے صفت انسان کو بھی درندہ بنا سکتا ہے۔ کیونکہ انسان کا نفس بھی عموماً برائیوں کی طرف مائل ہوتا ہے کیونکہ برائیاں مزین کرکے ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔گلی گلی نشہ آور ادویات کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے، اس سلسلے میں والدین بھی بے حسی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اپنا زیادہ تر وقت صالح افراد کے ساتھ گزاریں۔ درسگاہوں کی طرف اپنے قدم اٹھائیں۔ مساجد کی طرف اپنے قدم بڑھائیں۔
(۵) اوہام سے دور رہیں————————-
بی بی سی (bbc) کی official website سے یہ سطور رقم کی جاتی ہیں کہ، "ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈپریشن کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس یا بیزار رہتے ہیں یا گھبراھٹ، بے چینی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں تو شاید آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔” اہل شعور اس بات کا فہم رکھتے ہیں کہ مثبت سوچ انسان کی کردار سازی میں بھی کافی اہم کردار ادا کرتی ہے جبکہ منفی سوچ انسان کے حال اور مستقبل دونوں کو تباہ کردیتی ہے۔ معمولی معمولی باتوں کو سنگین نہ لیا کریں۔ بری خبروں سے دور رہیں۔ مشکلات سے لڑنا سیکھیں۔مرد کامل کبھی بھی آلام و مصائب سے تنگ آکر ہمت نہیں ہار سکتا۔آپکے پریشان رہنے سے کوئی مسئلہ نہیں کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ لہذا مسکرایا کریں۔ اگر کبھی تنگ آگر رونے کا من کرے تو خوب روئیں لیکن فقط اللہ تعالیٰ کے دربار میں کیونکہ وہی ذات مبارکہ ان آنسوؤں کی قدر جانتی ہے۔
(۶) قرآن کی تلاوت و دیگر عبادات کو اپنا معمول بنائیں—————-
قرآن کی آیات آپکو صابرین کا تعارف کرائیں گی۔سورہ انبیاء ہی دیکھ لیں کہ کس طرح انبیاء کرام نے مشکل حالات میں اللہ عزوجل کے ساتھ رشتہ مضبوط کیا اور پھر کس طرح اللہ عزوجل نے انہیں راحت عطا کی۔ صبر کا پھل یقیناً میٹھا ہوتا ہے۔ صبر کرنا سیکھیں، صبر کے مراتب کو حاصل کیجئے، توکل کو لازم پکڑئے۔ شکر کے جذبے کا بروۓ کار لانا سیکھ لیں۔ورآنی قصص کا مطالعہ کیجئے، بیشک قرآن کی تلاوت اور اللہ کی یاد میں دلوں کا سکون پوشیدہ ہے۔ نماز میں سجود کے اندر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا سیکھ لیجۓ۔ رات کے اندھیرے میں اٹھ کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنے مسائل ڈال کر تو دیکھ لیجئے۔ اللہ آپ کو کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاۓ گا۔استغفار لازم پکڑۓ۔ اللہ سے بار بار دعا کیجئے۔اور اس بات کا یقین رکھیں کہ "اللہ کے خزانے بہت وسیع اور بڑے ہیں، اللہ کے دربار میں کوئی بھی فعل ناممکن نہیں، اللہ کے خزانوں کو حاصل کرنا سیکھ لیجۓ، پریشانیوں کو خود پر کبھی بھی غالب نہ ہونے دیں”.
(۷) مسنون اذکار کا ورد کیجئے—————–
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ، "اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے”.(الاعراف) دوسرے مقام پر رب کائنات کا ارشاد مبارک ہے کہ، "اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہےاور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو”.(الطلاق) نیز اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ، "اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ تعا لیٰ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا”.(الطلاق) تقوی اختیار کریں یعنی اوامر کی پیروی کی جاۓ، منہیات سے اجتناب کیا جاے اور اخبار صحیحہ کی تصدیق کی جاۓ۔ہر چھوٹے بڑے گناہ سے اجتناب کریں۔ تقوی اختیار کرکے مسنون اذکار کا ورد کریں جن کی تعلیم رسول کریمﷺ نے ہمیں احادیث صحیحہ کے اندر فرمائی ہے۔اہل عقل کو چاہیے کہ وہ ان کتب کی طرف رجوع کریں جن میں علماء نے ترتیب کے ساتھ دعوات و اذکار کو بیان کیا ہے مثلاً حصن المسلم، دعاء مقبول، کتاب الاذکار ، الدعا من الكتاب والسنة، الادعية والاذكار، اذكار الصباح والمساء وغیرہ۔ اسی طرح رسول کریمﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا اپنا مشغلہ بنائیں، آپ ایک عجیب تاثیر پاؤ گے۔ بفضل اللہ
(۸) عقیدہ کی اصلاح کی جاۓ ————–
جان لیجئے کہ توحید ہر مرض کی دوا ہے، توحید ہر پریشانی سے نجات کا راستہ ہے، توحید ہی دلوں کا چین و قرار ہے، توحید ہی دلوں کا سکون ہے، توحید ہی آفات و امراض کا علاج ہے۔ توحید ہی غنا کا راز ہے، توحید ہی نزول رحمت کی مفتاح ہے۔ جس کے پاس توحید نہیں اسکے پاس خیر نہیں۔ توحید ہی اصل الاصول ہے، توحید ہی ہر خیر کی اساس ہے۔ غیروں کے در چھوڑ کر اللہ کے در کا سؤالی بن جا۔ غیروں کے دربار ترک کرکے اللہ کے دربار کا فقیر بن جا، اللہ کو منانا سیکھ لو۔ایام مسرت میں اللہ کو یاد رکھ، پریشانی میں تمہیں اللہ یاد رکھے گا۔
(۹) پریشانیوں میں خیر کا پہلو تلاش کریں——–
اللہ کی طرف سے جو بھی مصیبت نازل ہوتی ہے وہ بلا شک حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ بعض افراد اس حکمت کا ادراک کرپاتے ہیں اور بعض اس تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے۔ کبھی ہمارے گناہوں کی سزا ہوتی ہے، کبھی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں، کبھی ہمارے درجات کی بلندی کے لئے آزمائش ہوتی ہیں، کبھی ہمیں سیدھے راستے کی طرف لانے کے لئے تنبیہ ہوتی ہیں۔ وہ پریشانی آپ کے لئے باعث رحمت ہے جس سے آپکا رشتہ اللہ سے مضبوط ہوجاۓ، وہ پریشانی آپ کے لئے یقیناً باعث رحمت ہے جو آپکو دین کے قریب کردے۔یہ زندگی آسان بنانے کے لئے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشیاں تلاش کرنی پڑتی ہے۔ یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی درد سے گزر رہا ہے، یہاں ہر کوئی زخموں سے چور ہے لہذا خیر کا پہلو مدنظر رکھیں اور آخرت پر یقین کامل رکھیں۔
(۱۰) نبوی ﷺ وصیت کو یاد رکھیں———–
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "بیشک اسلام ابتدا میں اجنبی تھا، اور عنقریب دوبارہ اجنبی ہو جائے گا، اس لیے اجنبی لوگوں کیلئے خوش خبری ہے) کہا گیا: اللہ کے رسول! یہ کون ہونگے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’جو لوگوں کے بگڑنے پر ان کی اصلاح کرتے ہیں’۔ ” (الصحیحہ) دوسری روایت میں فرمایا، "یقیناً تمہارے بعد صبر کے دن آئیں گے، ان دنوں میں صبر کا مطلب انگارے ہاتھ میں پکڑنے کے مترادف ہوگا، ان دنوں میں عمل پیرا شخص کو پچاس لوگوں کے برابر عمل کا ثواب ملے گا”.(سنن ابوداؤد، سنن ترمزی) ایک اور جگہ فرمایا کہ، "تم میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اپناؤ نیز اسے انتہائی مضبوطی سے تھامے ہوئے دین میں شامل کیے جانے والے نت نئے امور سے بچو؛ کیونکہ ہر نیا عمل بدعت ہے، اور ہر بدعت محض گمراہی ہے”.(صحیح، سنن ابوداؤد)
Our anxiety does not come from thinking about the future, but from wanting to control it.
It’s not stress that kills us, it is our reaction to it.
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پریشانیوں سے نجات عطا کر خوشی کے ایام عطا کرے۔۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔