کالم نویس: طارق حسین ابرارؔ
(جموں)
رابطہ نمبر9541449225
ڈاکٹر سر محمد اقبالؔ کو دُنیا بھر میں شاعرِ مشرق کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اس خطاب کے پوشیدہ پہلو بہت سارے ہیں کیونکہ علامہ اقبالؔ کے آبا و اجداد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور ذات پات اور مذہب کے لحاظ سے کشمیری برہمن (ہندو) تھے لیکن بہت جلد مشرف با اسلام ہو کر دین حق کی طرف مائل ہوگئے۔ اقبالؔ کے والدین نے کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کرلی اور یہیں پر علامہ اقبالؔ کی پیدائش 1877ء میں ہوئی۔ ان کے والد محترم جناب شیخ نور محمد نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب دیکھا تھا جس میں ایک دلفریب پرندہ آسمان میں اُڑ رہا ہے اور لوگوں کا جمِ غفیر اِسے حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھا لیکن اس بھیڑ میں سے یہ پرندہ آسمان سے نیچے آ کر شیخ نور محمد کی گود میں آ بیٹھا۔ اِس خواب کی تعبیر تب مکمل نظر آتی ہے جب شیخ نور محمد کے گھر علامہ اقبالؔ کی پیدائش ہوتی ہے اور آئے روز ان کی عظمت و بلندی کے چرچے ہونے لگے۔اقبالؔ کی دن بہ دن قدر و منزلت بڑھنے لگی۔ علامہ اقبالؔ ذہین طالب علم تھے۔گھر بھی ادبی ماحول کا پروردہ تھا جس کی وجہ سے علم و ادب اور زندگی کے اصول وضوابط کو اچھی طرح سے پرکھنے کا موقع ملا۔یہ بھی غنیمت کافی اہمیت کی حامل رہی کہ میر حسنؔ جیسے با ادب اور شفیق اُستادکی سرپرستی حاصل ہو گئی اور یہ ربط اتنا گہرا ہوتا گیا کہ علامہ اقبال پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب حکومتِ برطانیہ کی طرف سے سر کا خطاب دیا جانے لگا تو انھوں نے قبول نہ کیا اور یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اگر میرے اُستاد کو یہ خطاب نہیں دیا گیا تو میں اِسے ہر گز قبول نہیں کروں گا تو حکومت کو مجبوراً یہ خطاب علامہ اقبالؔ کے اُستادِ محترم کو دینا پڑا۔ علامہ اقبالؔ کی زندگی کئی مراحل سے دو چار رہی لیکن انہوں نے صبر اور ہمت کا دامن کبھی نہ چھوٹنے دیا۔ عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گیارہ سال کی عمر میں مڈل کا امتحان پاس کر لیا۔ 1893ء میں میٹرک اور 1895ء میں مشن کالج سیالکوٹ سے درجہ اوّل میں ایف۔ اے پاس کیا اور ساتھ ہی ساتھ 1897ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے کا امتحان پاس کر کے گریجویٹ ہوگئے لیکن اِس دوران کالج میں پروفیسر آرنلڈ سے ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات کافی سُود مند ثابت ہوئی کیونکہ پروفیسر آرنلڈ فلسفہ کے اُستاد تھے اور علامہ اقبالؔ کو فلسفہ سے دلچسپی بڑھنے لگی جس کی وجہ سے وہ بعد میں فلسفہ کے بہترین اُستاد بن کر اُبھرے۔ اِسی دوران اقبالؔ 1905ء کو کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے وہیں سے فلسفہ اور اخلاق کی ڈگری حاصل کی۔ یہ وہ وقت تھا جب علامہ اقبال نے تعلیم کی طرف خصوصی دھیان دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی شاعری بہت کم پڑھنے کو ملتی ہے لیکن جو درد، فکر اور احساس کی موجودگی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ علامہ اقبالؔ کس فکر اور فلسفیانہ نظریہ کے حامل ہیں اور نئی نسل کے لیے راستے کے اُس پتھر کی مانند ہیں جسے ہر گزرنے والا مسافر دیکھ کر منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قوم کا درد تھا کہ 1908ء میں وطنِ عزیز کی طرف لوٹ آئے۔ حالات ایسے بھی تھے کہ اقبالؔ اگر چاہتے تو وہاں ہی سکونت اختیار کر سکتے تھے لیکن ایک آفاقی پیغام کا مسئلہ تھا جو اِس فلسفیانہ طریقہئ کار سے پہنچانا تھا جس کی بنا پر انھیں وطن واپس لوٹنا پڑا اور نوجوان نسل کا بیڑا اُٹھایا اگر اقبال دولت کی غرض سے واپس نہ آتے تو شائد آج تک اقبالؔ کا کوئی نام لیوا پیدا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؔ نے شاعر ی کو اپنا موقف بنایا اور اُمت مسلمہ کی زبوں حالی پر نوحہ خواں ہوئے اور ساتھ ساتھ نوجوان نسل کے غم کا مداوا بنے۔مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لا کر اقبالؔ نے نوجوان نسل کو بہترین سبق فراہم کیا ہے۔ اُمت کو بٹنے اور فرقہ پرستی کے ماحول سے آزاد کروانے کی کوشش کی ہے۔کسی بھی قوم کی فلاح اس کی ہمت اور حوصلہ مندی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقبالؔ نے مسلسل نوجوان نسل کو شاعری کے ذریعے یہ بات بتائی ہے کہ عشق، عمل اور صبر سے کام لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؔ کی شاعری کا محور، خودی، عشق، جد و جہد کا سبق دیتی ہے۔نوجوانوں کو بہترین نبض شناس کے طور پر علامہ اقبالؔ ملے ہیں۔ ایک شعر میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
؎عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
کسی بھی قوم کا بہترین سرمایہ اُس کے نوجوان ہوتے ہیں کیونکہ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے ظہور کے وقت جتنے بھی صحابیؓ اسلام کی صف میں شامل ہوئے وہ تمام کے تمام نوجوان تھے۔ اس کا عین ثبوت حضرت علیؓ تھے اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کسی قوم کوتباہ حال کرنا پڑے تو اْس کے نوجوان طبقہ میں فحاشی، فتنہ، شراب نوشی کا انتظام کردیا جائے تبھی علامہ اقبالؔ کا محور و مرکز نوجوان طبقہ تھا جو ایسا سرمایہ ہے جس کی بنیاد پر پوری دُنیا قائم رہے گی اور نسلیں ترقی و خوشحالی کی ضامن بنیں گی۔ تبھی تو وہ بالِ جبریل میں فرماتے ہیں۔
؎نہیں تیرا نشیمن قْصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اِس شعر میں اقبال ؔ نے بڑی خوبی سے یہ بات بیان کی ہے کہ تیرا مسکن اونچے اونچے محلات نہیں ہونا چاہیئے بلکہ تُو اُس پرندے کی مانند اپنے آپ کو تیار کر جو سخت پہاڑوں میں رہتا ہو جہاں سوائے پریشانیوں کے اور کچھ نصیب نہ ہو لہٰذا نوجوانوں کو درس صبر کیا جارہا اور فعال کردار کے طور پر شاہین کو توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔
علامہ اقبالؔ نے برِصغیر کے مسلمانوں میں جوش، ولولہ، فکر، طلاطم پیدا کیا جس کے نتیجے میں نوجوان قوم یا نسل عمل پر کمر بستہ ہو گئی۔ اقبالؔ کی شاعری فکر، سوچ، تخیل اور عقل و شعور کا خزانہ ہے انہیں نوجوانوں میں انقلاب لانے کی قوت دکھائی دے رہی تھی جس کی وجہ سے اْنھوں نے نوجوانوں کے ساتھ زیادہ ربط رکھا اور مسلسل یہ ضرورت رہی کہ نوجوان قوم سے ملاقات کی جائے اور انہیں وہ حقائق بنائے جائیں جن کے ذریعے تغیر و تبدل کے امکانات پیدا ہو سکیں۔ اسی وجہ سے علامہ اقبالؔ کو نوجوان قوم سے پیار تھا اور انہیں اُمید کی کرن محسوس ہو رہی تھی وہ ایک جگہ لکھتے ہیں۔
؎نہیں ہے نا اُمید اقبال ؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
علامہ اقبالؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو انقلابی پیغام دیا اور اس شاعری کے ذریعے نئی نسل میں وہ بیداری کی رُوح پھونک دی
جس کو سامنے رکھ کر بہت ساری منزلیں حاصل کیں ہیں اس سے بڑھ کر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اقبالؔ کا پیغام آفاقی ہوتے ہوئے بھی یہ درس دیتا ہے کہ ان کی شاعری ہر دور کی بہترین شاعری ہے جب بھی قوم کے اس جوان کو ضرورت آ پہنچی تو علامہ اقبالؔ کی شاعری سے وہ ضرور فیض یاب ہونگے اور اقبالؔ کی شاعری اُن کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
اقبالؔ نے شاعری میں شاہین کو بطور علامت کے لیا ہے اور جو خصوصیات شاہین پرندے میں موجود ہیں اگر یہ تمام خصوصیات ان نوجوانوں میں پائی جائیں تو یقیناً مسلم نوجوان کا کوئی مدِ مقابل نہ ہوسکے گا۔شاعرِ مشرق اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر ترقی اور عزت وقار کے مسائل کوحل کرنے سے بہتر ہے کہ اہلِ دْنیا کی سیر کی جائے اور مسلسل جد و جہد کر کے اپنی صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے۔علامہ اقبالؔ نے اپنی شاعری میں بار ہا اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر نسل نو مغرب کی اندھی تقلید میں محو ہو گئی تو اس کا انجام سوائے پستی کے اور کچھ نہیں۔ عصرِ حاضر کے جوانوں میں عقابی روح بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ علامہ اقبالؔ کا فلسفہ خودی کو پیش کر کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے جس کا ذکر اْن کے کلام میں جا بجا ملتا ہے۔
؎خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تُو اِسے سمجھا آپ جو تو پھر چارہ نہیں
یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؔ نے نوجوانوں کو حقیقت سے روشناس کروایا ہے اور ایسی فکر عطا کی ہے جس سے دْنیا اور آخرت میں کامیابی کا درس ملتا ہے۔
؎اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہوجس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
کسی بھی قوم کا سرمایہ اُس کے نوجوان ہوتے ہیں اگر نوجوانوں میں بیداری کی شمع جل جائے تو وہ قوم ترقی اور منزلت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجاتی ہے اور حکمران بن کر خوشحال زندگی کی ضامن بن جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں علامہ اقبال? دْعا کرتے ہیں۔
؎جوانوں کومیری آہ و سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
21ویں صدی اگر چہ انٹرنیٹ کی ترقی کازمانہ ہے لیکن اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ آج کا نوجوان کس طرح اس وبال میں پھنسا ہوا ہے۔ ہر طرف فتنہ فساد، خودکشی، نشہ آور ادویات کا چلن ہمارے معاشرے کو پستی کی طرف راغب کررہا ہے اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اگر کسی قوم کے نوجوان اپنی روایات سے انحراف کے چل رہا ہے تو وہ اپنی پہچان کھو رہا ہے۔ علامہ اقبالؔ کی شاعری نوجوان نسل کے لیے دعوتِ فکر ہے اور اِسے اپنا قیمتی سرمایہ سمجھنا چاہیئے۔ اس میں ہماری ذاتی وقومی بقاء کا راز بالکل پوشیدہ ہے۔ جوں جوں ہم اس کی ورق گردانی کرتے جائیں گے۔ غور و خوض کریں گے تو یہ ایک نئے طرزِ اسلوب سے ہمیں پیش آئے گی۔ شاعرِ مشرق کی تعلیمات اور فلسفہ خودی اور شاہین پر عمل پیرا ہو کر ہم عالم دْنیا میں ایک خود دار، جانبدار، دلیر قوم بن سکتی ہے۔ یہ آسانی بہت ہی اہم درجہ کی حامل رہے گی کہ ایک طرزِ
زندگی یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ میسر ہو جائے گا۔ ہماری پریشانیوں کا حل، ان کے افکار و تجربات پر چل کر ہی ہوگا۔ اس لئے نوجوانوں کو چاہیئے کہ مسلسل جد و جہد، مکمل خاکہئ زندگی، آخروی سوچ و فکر کو لے کر چلیں تب جا کر ہم علامہ اقبالؔ کی شعری و عملی دُنیا کے ساتھ کہیں انصاف کر سکتے ہیں ورنہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اگر اپنے مقام و مرتبے کو ہم نے نہیں پہچانا تو ایک دن ہم بھی اس جہاں میں بے نام و نشاں ہو کر رہ جائیں گے اور پھر ہماری آخرت بھی صاف خرابی کے عالم میں پڑی ہوئی ہو گی اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ اقبالؔ کی شاعری کے ذریعے اپنے حالات و واقعات کو درست کیا جائے ابھی بھی وقت کی کچھ ساعتیں میسر ہیں۔
(نوٹ: کالم نویس ایک صحافی، ادیب، مصنف اور مترجم ہیں۔)
٭٭٭٭٭٭٭٭