فہیم الاسلام
طالب علم شعبہ سیاسیات
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہے کہ ہر کسی لڑائی کی انتہا آخر کار تباہی ہوتی ہے چاہے وہ اقتصادی ہو،سماجی ہو، سیاسی ہو، دونوں فرقوں کو اپنے ذرائع سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اور دنیا آج تک اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بھی مسلے کا حل آج تک جنگ سے نہیں بلکہ دو فرقوں کے آپسی تعاون اور بات چیت سے ہوا ہے۔ اور یہی صورتحال آج پوری دنیا فلسطین میں دیکھ رہی ہے جہاں پہ کئی سالوں سے جنگ چھڑی ہوئی ہے اور وہ جنگ جو انسانوں کے خون کی پیاسی ہے ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
اس لڑائی نے ابھی تک ہزاروں کی تعداد میں بچے، بزرگ ، خواتین کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، اور بہت سے خاندانوں کو تباہ و برباد کیا ہے چاہے وہ اسرائیلی ہو یا فلسطینی ہو۔ اور سب سے پہلے ہمیں انسان ہونے کے ناطے ان تمام حادثات اور جنگوں کی مذمت کرنی چاہیے کیونکہ جو صورتحال اس وقت فلسطین میں دیکھنے کو مل رہی ہے وہ ایک انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔
اسی طرح آج فلسطین میں دس دنوں کی بربادی اور جنگوں کے سلسلے کے بعد حماس اور اسرائیل کے ما بین ایک معاہدہ ہوا جس میں جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا کہ جس جنگ سے ابھی تک کئی معصوموں کی جان جا چکی ہیں اسکو کس نہ کسی طریقے سے روکا جائے اور امن کی طرف دونوں ملکوں کو گامزن کیا جائے۔اس جنگ بندی کا اعلان جمعہ کی صبح کو ہوا اور گیارہ روز سے چلی آئی ہوئی لڑائی جس میں ابھی تک دو سو چالیس سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں ۔سیز فائر کے اعلان سے قبل اور لڑائی کے آخری روز یعنی جمعرات کو اسرائیل نے غزہ کے شمال میں سو سے زائد فضائی حملے کیے تھے جس کے جواب میں حماس کی جانب سے بھی راکٹ فائر کیے گئے۔اسرائیل اور حماس میں کئی روز تک جاری رہنے والی کشیدگی کے 10 مئی کو باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہوا تھا۔ یہ کشیدگی مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے چند فلسطینی خاندانوں کو بیدخل کرنے کے کوششوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔لڑائی کے دوران اسرائیل کی جانب سے درجنوں فضائی حملے کیے گئے جبکہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے گئے۔ جمعہ کی صبح جنگ بندی کا اعلان سنتے ہی غزہ کے لوگ سڑکوں پہ جشن منانے آے اور مسجدوں میں اللہ اکبر کے نعرے بھی بلند کیۓ، اور فتح کا اعلان کردیا۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کی اسرائیل کا جنگ بندی کا اعلان ہی ان کی شکست کا ثبوت ہے۔
اب دونوں فریقین کے بیچ میں میں امن بحال کرنے کے لیے اور کئی سالوں سے چلی آئی ہوئی جنگ کو روکنے کے لیے معاہدہ کیا گیا جس میں سیز فائر کا اعلان کردیا گیا تھا کہ فلسطین میں معصوموں کی جانوں کو بچایا جا سکے اور اس پر عالمی برادری نے بھی مسرت کا اظہار کیا ۔ امریکی صدر نے کہا کہ جنگ بندی کی راہ دونوں فریقوں کے لئے بہتر ہے ۔لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان دو گروہوں میں امن تب بحال ہو سکتا ہے جب فلسطین کو اپنا حق مل جائے گا کیونکہ جب تک انسانی حقوق کے محافظین اس مسلے کو سنجیدگی سے نہ سمجھے تب تک جنگ بندی سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسلم ممالک اور عالمی برادری کو سامنے آکر اس مسلے کا حل تلاش کرنا چاہیے ورنہ حالات بد سے بد تر ہو سکتے ہیں۔ اور ابھی تمام مسلم ممالک کی یہی ایک ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں کہیں بھی مسلمان مظلوم ہو وہ ان کی حمایت کرے چاہے فلسطین وکشمیر ہو یا دیگر مسلم ممالک ہوں اور ابھی فلسطینیوں کی نظر بھی صرف مسلم ممالک میں ٹکی ہوئی ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں سے خالد بن ولید، سلطان صلاح الدین ایوبی کو لے کے آ جائیں گے۔اور ابھی جہاں جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے وہی مسلم ممالک کو سامنے آ کر عالمی برادری سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ فلسطینیوں کو کیسے تحفظ دیا جائے اور کس طریقے سے پوری انسانیت کو اس تباہی کے خطرے سے بچایا جا سکے۔