رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ
وہ ایک دوسرے کے ساتھ بے انتہا سچا پیار کرتے تھے ۔ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد ہی وہ ایک دوسرے کو جاننے لگے اور انہوں نے بہت بار وعدہ کیا تھا کہ ہم دونوں چاہے کچھ بھی ہوجائے شادی کے بندھن میں بندھ ہوجائیں گے ۔ دونوں ایک ساتھ پڑھتے بھی تھے اور انہوں نے دسویں کے بعد بارہویں اور گریجویشن بھی ایک ساتھ مکمل کر لی تھی ۔۔۔۔۔
گریجویشن اور بی ایڈ کرنے کے بعد جب دونوں کو محمکہ تعلیم میں نوکری بھی ملی تو شادی کی راہ ان کےلئے ہموار ہوگئی کیونکہ اس سے پہلے لڑکے کے گھر والے بے روزگاری کا بہانہ بناکر اسکی شادی نہ کرنے کی باتیں دہراتے تھے ۔ اب جب لڑکی بھی ملازم ہے تو گھر والے زیادہ ہی خوش اور مطمئین تھے ۔ بلاآخر لڑکے نے اپنے گھروالوں کو بتایا کہ کہاں اسکی مرضی ہے ۔ اسکو پورا بھروسہ تھا کہ انکی شادی کسی بھی صورت میں ہو ہی جائے گی کیونکہ اسکی محبوبہ ہر گزرتے دن اسکو شادی جلدی کرنے پر زور دیتی تھی کیونکہ انکو ہر روز نئے نئے پیغامات رشتے کے لئے آتے تھے ۔ ان سارے پیغامات کو وہ اس لئے ٹھکراتی تھی کیونکہ اسکو پتہ تھا کہ اسکی شادی کہاں اور کس کے ساتھ کرنی ہے ۔۔۔
جب لڑکے نے گھر میں شادی کے بارے میں بولا تو انہوں نے اسکی چھوٹی بہن کو وہاں بیجھا تاکہ وہ دیکھے کہ آنے والی بہو کیسی ہے اور کس مزاج کی ہے ۔ اسکا بھائی خوش تھا کیونکہ اسکو پورا بھروسہ تھا کہ اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ وہ شادی ضرور اسی کے ساتھ رچائے گی ۔
جب بہن واپس آئی تو گھروالوں نے اسکو پوچھا کہ کیسی لگی آپکو بننے والی بہو ۔
ہاں ٹھیک ہی ہے اور جب بھائی جان بھی اسی میں خوش ہے تو زیادہ ہی بہتر ہے ۔
دوسرے دن جب وہ دونوں عاشق اور معشوقہ آپس میں باتیں کررہے تھیں تو وہ بولی ۔۔۔
آپکی وہ بہن کتنی سال کی ہے ۔
کیوں ؟
ایسے ہی پوچھا کہ مجھے کتنے سال تک اس کے ساتھ رہنا ہے ۔ جب تک اسکی شادی نہ ہوگی تب تک تو مجھے اسکے ساتھ خواموخواہ رہنا ہی ہے نا ۔۔
کس قسم کی باتیں کرتی ہو تم ۔ ابھی ہم نے کچھ کیا ہی نہیں ہے تو تجھے میری بہن کی فکر لگ گئی۔۔۔۔
شوہر کی غیر شادی شدہ بہنیں اکثر اپنی بابیوں کو بہت تنگ اور پریشان کرتی ہیں ۔ اسلئے میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ مجھے کتنے سال اسکے ساتھ گزارنے ہیں ۔۔۔۔۔
اپنی معشوقہ کی باتوں نے اسکو بہت غصے میں ڈال دیا اور اس سے صاف صاف کہنے لگا کہ مجھے آپ سے اب شادی کرنی ہی نہیں ہے ۔ میں اپنی چھوٹی بہن کو آپ جیسی عورت کے ساتھ لڑانا نہیں چاہتا ہوں ۔ میں اس کے لئے سب کچھ قربان کرسکتا ہوں۔۔۔۔۔۔
کچھ مہینے اسی طرح گزرے اور بالآخر اس نے کسی اور لڑکی کے ساتھ شادی گھر والوں کی مرضی کے مطابق رچائی ۔ اسکی سابقہ معشوقہ نے بھی کسی اور لڑکے کے ساتھ شادی کی جو ایک انجینئر تھا ۔۔۔
کچھ ہی مہینے بعد اس نے چھوٹی بہن کی شادی بھی اپنے ہی ہمسائیگی میں کرائی ۔ کئی سال بہن بھائیوں کو ٹھیک سے نکلے لیکن جب بہن کو اپنے بچے بالغ ہوگئے تو انہوں نے ماما کو طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کیا ۔ بہت بار لڑائی جھگڑا اس حد تک پہنچا کہ پولیس تھانے میں بھی کیس کرایا گیا ۔ اب وہ نہ ایک دوسرے کے گھر جایا ہی کرتے ہیں نہ آپس میں بات چیت ہی کرتے ہیں ۔۔۔۔
اب وہ ہر صبح اور ہر شام اسی سوچ میں پڑا رہتا ہے کہ جس بہن کےلئے اس نے اپنا محبت اور پیار قربان کیا اور ہر طرح اسکی کفالت کی آخر وہ غیروں جیسا سلوک کر بیٹھی ۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔