تحریر کردہ :- فرید اعوان راز
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
[email protected]
9149971684
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
مَر مَر کے مسافر نے بسایا ہے تجھے
منہ پھیر کے سب سے منہ دکھایا ہے تجھے
کیوں کہ نہ لپٹ کر سوؤں تجھ سے اے قبر
میں نے بھی تو جاں دے کے بسایا ہے تجھے
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
آہ! الحاج محمد شفیع اعوان صاحب اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔کتنے لوگ ہیں جو زمین کی خوراک بن گئے، کتنے چہرے ہیں جو نگاہوں سے اوجھل ہوگئے، کتنے دوست ہیں ، جنھوں نے دنیا سے پردہ کر لیا ، مگر سب ایسے رخصت ہوئے کہ زندگی کے شور و غل ، ہنگاموں،میں نام یاد نہیں رہتے۔کیسے کیسے علم کے روشن چراغ بجھ گیے۔ ہزاروں انسان اس دنیا میں آیے اور اپنا متعین وقت گزار کر رخصت ہوگئے،کچھ تو ایسے بھی تھے جنہوں نے عالم دنیا میں شہرت حاصل کی اور پھر اس زندگی نے وفا نہ کی اور اسکو خیر آباد کہنے پر مجبور ہوگئے ۔گلشن ہستی میں جن قابل قدر شخصیات نے اپنے خون جگر سے چمن کی آب پاشی کی ہے۔ اور رہتی دنیا تک کے لیے اپنی حیات مستعار کے بیش قیمت نقوش انسانی دلوں پر مرتسم کیے ہیں ۔
الحاج محمد شفیع اعوان صاحب نے سماجی خدمات کرنے میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی۔اللہ پاک نے اعوان صاحب کے دل میں غریبوں، مسکینوں، اور بیواؤں کے اتنی محبت رکھی تھی۔جس کا کوئی شمار نہیں۔جہاں غریبوں کو دیکھتے مدد کے لیے صف اول میں حاضر ہو جاتے۔ مرحوم نرم مزاج اور نرم طبیعت اچھے اخلاق کے حامل۔ہمہ وقت لوگوں کی فکر میں ڈوبے رہتے تھے۔مرحوم کی گفتگو میں وہ اثر ملتا تھا جس کی مثال نہیں۔الحاج صاحب نے سب سے پہلے جو پنیری مدرسہ دارالحدیث السلفیہ پونچھ میں لگائی تھی،ان سب نے مرحوم کا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔ مرحوم نے 1984 میں ایک پیڑ لگایا تھا ،انشاء اللہ قیامت کی صبحِ تک وہ پھولتا اور پھلتا رہے گا۔ اور مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بنے گا۔
کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں
الحاج شفیع اعوان صاحب نے آ ہم سب کا ساتھ چھوڑ دیا۔یہ جمعیت اہلحدیث پونچھ کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔ جمعیت اہلحدیث کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کرنے میں مرحوم صاحب بہت بڑی قربانیاں ہیں۔ 1984 سے آج تک جتنے بھی طلبہ مدرسہ دارالحدیث سلفیہ پونچھ سے فارغ ہوئے ان سب پر مرحوم کی سرپرستی اور دعا شامل رہی۔جمعیت اہلحدیث پونچھ کی تاریخ شاز شخصیت ، اور خادم جماعت ، سابق صدر ضلع جمعیت اہلحدیث پونچھ و مہتمم مدرسہ دارالحدیث السلفیہ صاحب اس دار فانی سے رخصت ہوگئے،اور اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے۔ یہ یقین نہیں ہو رہا،دل کو کیسے سمجھاؤں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک تاریخی باب کیسے بند ہوگیا۔ جماعت کا عظیم سرمایا ،اورتاریخ کا ایک روشن ستارہ ہمیں کیسے چھوڑ گیا؟جمعیت اہلحدیث پونچھ غم کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔اور یہ غم اتنی خاموشی اور دبے قدموں کے ساتھ سامنے آیا کہ وہم و گماں بھی نہیں تھا،اور ایسا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔اچانک ہی ایک ہفتہ پہلے طبیعت خراب ہوئی، اور پھر سمنوار 12:45 بجے اعوان صاحب کی روح عالم بالا کی طرف پرواز کرگئی۔انکی رخصتی نے پورے شہر میں غم کا سما پیدا کر دیا۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
الحاج محمد شفیع اعوان صاحب مرحوم نے پندرہ سال تک جمعیت اہلحدیث پونچھ کے پہلے ناظم اور پھر صدر بھی رہے۔اور صوبائی جمعیت اہلحدیث جموں کے نائب صدر رہے۔ الحاج محمد شفیع اعوان صاحب مرحوم نے جمعیت اہلحدیث پونچھ کی آبیاری میں کوئی کون کسر نہیں چھوڑی تھی۔اللہ پاک نے مرحوم کے دل رحم و شفقت کا اک مادہ رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے مرحوم نے غریبوں اور بیکسوں کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔زندگی کا کاروبار اسی طرح جاری رہے گا،لوگ آتے رہیں گے،بحکم رب رخصت ہوتے رہیں گے۔صبح و شام زندگی اور موت کے ہزاروں منظر آنکھیں دیکھتی ہیں۔مگر کتنے حادثات ہیں کہ جن پر آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں۔ اللہ پاک مرحوم کے دراجات بلند کرے۔اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین ثمہ آمین
یارب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخم ہنر کو حوصلہ لب کُشائی دے
شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں، تو رستہ سجھائی دے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لا مکاں کیسے کیسے
ھوئے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
یہی تجھ کو دُھن ہے رہوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
اللہ پاک الحاج محمد شفیع اعوان صاحب کی قبر کو روشن کرے۔اور قبر کو تا حد نظر کشادہ کرے آمین ثمہ آمین اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔۔۔۔امین ثمہ آمین