فاضل ظہور
چمر نورآباد کولگام
[email protected]
گوگل، فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ اور باہمی رابطوں کے دیگر تمام ذرائع درحقیقت ایک گہرا سمندر ہیں جس میں لوگ اپنے اخلاق کو کھو رہے ہیں اور دماغی صلاحیتیں کھپا رہے ہیں۔ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور جوان بھی۔ اس سمندر کی بے رحم موجیں نہ صرف ایک خلق کثیر کو ہلاک کرچکی ہیں بلکہ ہماری عورتوں کی حیا بھی نگل چکی ہیں۔
اس میں انہماک سے بچو ۔
انٹرنیٹ پر آپ کا رویہ شہد کی مکھی کی طرح ہونا چاہیئے، صرف عمدہ باتوں پر توجہ مرکوز کرو، خود بھی استفادہ کرو اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاؤ۔ عام مکھی کی طرح ہر گندی اور صاف چیز پر مت بیٹھو، مبادا دوسروں تک بیماری کے جراثیم منتقل کرنے لگو اور تمہیں اس کا احساس ہی نہ ہو۔
انٹرنیٹ ایک بڑی مارکیٹ ہے، یہاں کوئی بھی اپنی چیز مفت لے کر نہیں بیٹھا، ہر شخص اپنا سودا کسی نہ کسی عوض پر دینے کا خواہشمند ہے۔ کوئی اپنی چیز کا سودا اخلاق کی قیمت پر کرنا چاہتا ہے تو کسی کو فکری انتشار کی تجارت پسند ہے۔ بعض کا مقصد شہرت اور حبِ جاہ ہے اور ایسے بھی ہیں جو اپنے تئیں خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس لیئے خریداری سے پہلے سامان کی خوب چانچ پڑتال کرو۔
تعلقات قائم کرنے میں بھی احتیاط سے کام لو، بعض تعلقات شکاری کے جال کے مانند ہیں، بعض برائی کا سرچشمہ ہیں، کچھ بے حیائی اور فسق وفجور پر مبنی ہیں اور کچھ کا انجام تباہی اور بربادی ہے۔
نشرو اشاعت میں بھی محتاط رہو، جن باتوں سے شریعت نے منع کیا ہے انہیں کاپی پیسٹ کرنے سے گریز کرو۔ یہ نیکیوں اور گناہوں کی تجارت ہے۔ تم کیا سودا بیچ رہے ہو اس پر تمہاری گہری نظر رہنی چاہیئے۔
کسی تحریر پر کمنٹ یا اسے شیئر کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح بار بار سوچ لیا کرو کہ یہ الله کی خوشنودی کا باعث ہے یا ناراضی کا۔
ایسے شخص کی دوستی پر بھروسہ مت کرو جسے تم نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو، لوگوں کی تحریروں سے انہیں سمجھنے کی کوشش مت کرو۔ یہ دوست کے بھیس میں اجنبی ہیں، ان کی تصویروں میں ڈبنگ (جعلسازی) ہے، ان کا اخلاق وکردار مخفی ہے، ان کی گفتگو میں ملمع سازی ہے، ان کے چہروں پر ماسک (خول) ہیں، یہ جھوٹ بھی ایسے بولتے ہیں کہ سچائی کا گمان ہوتا ہے۔
بہت سے عقلمند دکھائی دینے والے در حقیقت بڑی حماقت میں مبتلا ہیں۔
کتنے خوبصورت ایسے ہیں جو حقیقت میں بدصورت ترین ہیں۔
بہت سے سخی نظر آنے والے ایسے ہیں جن کا شمار کنجوس ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔
بے شمار ایسے ہیں جو شجاعت کے وصف سے شہرت رکھتے ہیں مگر پرلے درجے کے بزدل ہیں۔
سوائے ان کے جن پر الله کی رحمت ہو۔ (الله کرے تمہارا شمار بھی ان میں ہو۔)
فرضی نام (فیک آئی ڈیز) رکھنے والوں سے بھی دور رہو۔ ایسے لوگ اعتماد سے عاری ہوتے ہیں، سو اس شخص پر کیونکر اعتماد کیا جائے جسے خود پر ہی اعتماد نہ ہو اور تم بھی فرضی نام اختیار مت کرنا، کیونکہ الله ہمارے لمحه لمحه کے ہر راز سے واقف ہے۔
جو تمہارے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کرے اس کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار مت کرنا، تمہارا رویہ تمہاری اپنی شخصیت کا ہے اور اس کا کردار اپنی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ سو تم اپنے اخلاق کی نمائندگی کرو اس کے اخلاق کی نہیں۔ ظاہر ہے برتن سے وہی کچھ چھلکے گا جو اس کے اندر ہے۔
کوئی چیز لکھنے سے پہلے ہزار بار سوچو، تم جب لکھتے ہو تو تمہارے فرشتے بھی لکھ رہے ہوتے ہیں، اور اس سارے عمل کی نگرانی براهِ راست الله تعالىٰ کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے بحرِ ظلمات میں جس چیز کا مجھے سب سے زیاده خطره ہے وه نظر کا غلط استعمال ہے یعنی ایسی تصویریں اور ویڈیو کلپس دیکھنا جن میں فسق و فجور اور الله کی نافرمانی ہو۔ اگر تم اپنے نفس کو ان محرمات سے دور رکھ سکو تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بھرپور استفاده کرنا اور اس سے دین کی نشرو اشاعت کا کام لینا، لیکن (الله نه کرے، الله محفوظ رکھے) اگر تمہارا نفس ان محرمات کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے تو انٹرنیٹ کی دنیا سے ایسے دور بھاگنا جیسے انسان وحشی درندے سے بھاگتا ہے، ورنہ روزِ محشر تمهارا سامنا الله سے ہوگا؛ پھر اسکی مرضی چاہے تو معاف کردے چاہے عذاب دے دے۔ (فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ)۔
انٹرنیٹ غفلت اور شہوت کا ایک بڑا باعث ہے اور انہی دو چیزوں کے ذریعے شیطان نفس پر حاوی ہوتا ہے۔ دھیان رہے کہ انٹرنیٹ تمہارے فائدے کے لیئے ہے اس سے فائده اٹھاؤ، یہ غفلت کے لیئے نہیں کہ اسی کے ہو کر ره جاؤ، اس سے تعمیر شخصیت کا کام لو تخریب کا نہیں، نیز قیامت کے دن اسے اپنے حق میں گواه بناؤ نه که اپنے خلاف۔