فہیم الاسلام
طالب علم شعبہ سیاسیات
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
آج پوری دنیا میں جس طریقے سے جنگیں ہو رہی ہیں، معصوموں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، بہنوں کی عزت اور ماؤں کے لاڑلے زندہ درگور کے جاتے ہیں۔ ایک ملک دوسرے ملک کے اقتصادی اور سماجی حالات کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔چاہے وہ حالات فلسطین میں ہوں کشمیر میں ہوں برما میں ہوں یا دیگر دنیا کے مظلوم ممالک میں ہوں آخرکار ایک انسان ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، ایک ماں ہی اپنے اکلوتے سہارے کو کھو دیتی ہے ایک بہن ہی اپنی وداعی رسم کو پورا کرنے والے اپنے شہسوار کو کھو دیتی ہے۔ اسی طریقے کے حالات آج پوری دنیا فلسطین میں دیکھ رہی ہے۔جہاں معصوم بچوں سے لے کر سفید داڑھی میں رنگے بزرگ لوگوں کو انسانی ہٹ دھرمی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ جہاں سے ننے بچوں کی آواز اور معصوم پکار آسمانوں کے پردے چاک کر رہی ہے، جہاں پہ بزرگ اپنے لاڈلوں کو اپنے سامنے تڑپتے ہوۓ دیکھتے ہیں ، جہاں بہنوں کی عزت کو سرعام نیلام کر کے اپنی بہادری کا ثبوت دیا جاتا ہے ہے۔ آخر کب تک ان درندوں کی پیاس بجھے گی، کب تک انسانی لباس کا لبادہ اوڑھنے والے درندہ صفت حکمران انسانی جان کی اہمیت کو سمجھیں گیں،اور کب تک امن والے شہر میں رہنے والے لوگ ان بے سہارا ماؤں اور بچوں کی سسکتی ہوئی آواز میں چھپے ہوئے درد کو پہچان لیں گی۔
تم شہر اماں کے رہنے والے, درد ہمارا کیا جانو!
ساحل کی ہوا تم موج صبا, طوفان کا دھارا کیا جانو!
فلسطین کے موجودہ صورتحال پر بات کرنے سے پہلے میں یہاں پر یہ موزوں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کے ماضی کی تاریخ کے اوراق پر ایک نظر دوڑائی جائے اور اس بات کا عہد کیا جائے کہ ہمیں انسان ہونے کے ناطے اور خاص کر ایک مذہبی کارکن ہونے کی حیثیت سے کس کا ساتھ دینا چاہیے۔موجود تازہ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی محض ایک کروڑ سینتالیس لاکھ ہے اور اس میں سے 67 لاکھ یہودی اسرائیل میں رہتے ہیں، جبکہ دوسرے نمبر پر یہودی جس ملک میں سب سے زیادہ رہتے ہیں وہ ہے امریکہ جہاں 57 لاکھ یہودی رہتے ہیں، یعنی یہودیوں کی بڑی آبادی دو ہی ممالک میں ہیں جس میں سے ایک خود اسرائیل ہے اور دوسرا امریکہ، اب شائد سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ کیوں امریکہ اسرائیل کے ہر غلط عمل کی حمایت کرتا ہے۔ یعنی دنیا کے ایک کروڑ سینتالیس لاکھ یہودیوں میں سے ایک کروڑ چوبیس لاکھ یہودی ان دو ملکوں میں رہتے ہیں۔ یعنی باقی 23 لاکھ یہودی دنیا کے دیگر ممالک میں رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے پوری دنیا میں یہودیوں کی آبادی ایک کروڑ 66 لاکھ تھی۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ نے برطانیہ سے شکست کھائی تو اس کے بعد برطانیہ نے پورے فلسطین کے خطے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔اور اور اس وقت عرب کے مسلمان فلسطین میں اکثریت میں تھے اور یہودی اقلیت میں تھے۔لیکن سب سے خوبصورت حقیقت یہ تھی کہ اس وقت عرب کے مسلمان اور یہودی آپس میں امن اور پیار سے مل جل کر رہتے تھے۔لیکن اس کے بعد یہ محبت اور بھائی چارہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور فلسطین کے اس پر امن خطے میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ سے فلسطین میں یہودیوں کا ایک قومی گھر تشکیل کرنے کا مطالبہ کیا۔اور اس قومی گھر کے لفظ نے فلسطین میں تناؤ کے وہ صورتحال پیدا کردیے جس کو آج پوری دنیا جنگ کی صورت میں دیکھ رہی ہے۔ اور یہودیوں کی ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان کے ہمدردوں نے کہا ہمیشہ سے ان کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کی بے بسی کو دیکھ کر بہت سے دانشوروں نے صہونیت (Zionism) کا لفظ ایجاد کیا. اور اس سے وہ یہی مطالبہ کرتے تھے کہ یہودیوں کا ایک الگ ملک ہونا چاہیے جہاں ان کی خود کی حکومت ہونی چاہیے تاکہ وہ دوسرے لوگوں اور دوسرے ممالک کے ان مصائب و آلام سے بچ سکے۔اور پھر اسی فکر نے فلسطین میں یہودیوں کی تعداد کثرت سے دیکھی 1920 سے 1940 تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد بہت ہی زیادہ بڑھ گئی اور لگاتار اس میں اضافہ ہونے لگا ، اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کو ہی اپنا قومی گھر تشکیل دینے کی کیوں سوچی؟، اس میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک فلسطین ایک اہم مقام رکھتا ہے اور وہاں پہ یروشلم کا مقام مذہبی تاریخ سے آراستہ ہے۔ عیسائیوں کے دباؤ پر اور عالمی برادری کے قومی گھر کو تشکیل دینے کی بات نے اقوام متحدہ کو اس بات پر مجبور کیا کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے ۔ایک حصہ یہودیوں کے قبضے میں رہے گا اور ایک حصہ فلسطین کی ریاست رہے گی۔اور یروشلم بیت المقدس کو دس سال تک بین الاقوامی شہر رکھا جائے گا۔ یہ بات 1947 کے بعد دیکھنے کو ملی۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو فوراً تسلیم کیا لیکن عرب مسلمانوں نے اس کو مسترد کیا اور بہت ہی زیادہ مخالفت کی۔ اس کے بعد 1948 میں برطانیہ اس مسئلہ کو حل کئے بغیر فلسطین کو چھوڑ کے چلا گیا اور امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہودیوں نے فلسطین کو اپنی ریاست قرار دیتے ہوئے اس کا اعلان کردیا اور فلسطینیوں نے اس کی مخالفت کی پھر اس کے بعد سے جنگ شروع ہوئی جو آج تک جاری و ساری ہے۔
فلسطین میں بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے اور مسلمان ہمیشہ اپنے مذہب کی چیزوں میں جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ جو چیز دنیا میں اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے وہ چیز کبھی بھی ایک مسلمان اور خاص کر مومن کا دل گوارا نہیں کر سکتا لیکن آج جہاں فلسطین میں ظالم نے معصوم فلسطینیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا ہوا ہے وہی 57 مسلم ممالک محض ایک تماشائی بنے ہوئے ہیں ، جہاں اک طرف وہ فلسطین کی معصوم آوازیں سلطان صلاح الدین ایوبی کی انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے، جہاں معصوم بہنیں مسلم ممالک سے خالد بن ولید کو نظروں سے دیکھنا چاہتے ہیں، جہاں وہ پرعزم اور پروقار شخصیت کو مومنانہ اور قلندرانہ لباس پہنتے ہوئے فلسطین کی معصوم سرزمین میں دیکھنا چاہتے ہیں وہیں مسلم حکمران اسرائیل کی حمایت میں بیٹھے ہیں۔ ۔ اس کے علاوہ اگر انسانی حقوق کے علمبرداروں کی بات کی جائے وہ بس کاغذی طور پر دنیا کے رکھوالے ہیں لیکن عملی جامہ ہم سب نے ان کا دیکھا ہے چاہے وہ مسئلہ کشمیر ہو فلسطین ہو برما ہو یا باقی دیگر مظلوم ممالک ہوں ، ہمیشہ سے عالمی برادری نے اپنے ہاتھ اور اپنے پیر پیچھے رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ بات مسلم ممالک کو یاد رکھنی چاہیے کہ آج ہماری خاموشی بھی ظالم کا ساتھ دینا ہی ہے ۔ اس لیے عالمی برادری کو سامنے آنا چاہیے تاکہ اس اس تباہ کن جنگ سے معصوموں کو بچایا جائے ۔ فلسطین میں امن وامان کی لہر قائم کی جائے،اور جن معصوموں کی جانیں آج فلسطین کی سرزمین دیکھ رہی ہے وہ جانیں قوم کے مستقبل بن کے رہ جائیں۔
تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوش محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سرِ دارا