رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ
خورشید بیگ کی خالہ کئی دنوں سے بستر مرگ پر تھی ۔ بیوی کے کہنے پر وہ اسکی خبر پرسی کےلئے صبح سویرے گھر سے نکلا ۔ وہاں پنہچ کر اس کی ملاقات اپنے کئی سارے دوستوں ، رشتے داروں وغیرہ سے ہوئی ۔ خالہ روبہ صحت ہورہی تھی اور خورشید بیگ یہ جان کر خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔
اچانک چار پانچ سال کا ایک بچہ کمرے میں داخل ہوتے ہی سبھی لوگوں سے شرارتی انداز میں پیش ہوا اور وہ ہر کسی کے ساتھ جھگڑنے لگا ۔ کافی اصرار کے باوجود بھی جھگڑتا رہا ۔۔۔۔
جب خورشید نے یہ جاننا چاہا کہ یہ کس کا بچہ ہے ، اور وہ کیوں اتنا شرارتی ہے ، معلوم ہوا کہ وہ جاوید میر کا بیٹا ہے ۔ بہت سالوں تک جب جاوید اولاد کی نعمت سے محروم تھا تو قادر بب جو علاقے میں مشہور پیر تھا نے اسکی اہلیہ کو رش دی تو اس نے اس لڑکے کو جنم دیا ۔ قادر بب خود بھی بہت شرارتی اور تیز مزاج ہے ۔۔۔۔۔
وہاں موجود ایک اور شخص نے ایسی ہی کہانی خورشید کو سنائی ۔ ” میری بہو دس سال تک ڈاکٹروں کے چکر لگاتی رہی ۔ لاکھوں روپیہ صرف کرنے کے باوجود بھی کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔ میرا بیٹا اسکو طلاق دینے پر اتر آیا تھا ۔ پھر ہم بھی ایک پیر کے پاس گئے جس نے میری بہو کو رش دی اور آج وہ تین بچوں کی ماں ہے ۔۔۔۔۔
ایک اور آدمی سے خورشید کو ایسی ہی کہانی سننی پڑی ۔۔۔۔
خورشید بیگ اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے کمرے میں موجود تمام لوگوں سے مخاطب ہوکر جواب دینے پر اتر آیا ۔۔۔۔
کس قسم کی باتیں آپ لوگ کرتے ہو ۔ کیا آپ کو اللہ اور اسکے مقدس کلام پاک پر بھروسہ نہیں ہے ۔ اللہ اپنے بندوں سے کہتا ہے ۔ ” یہ میری مرضی ہے جس کو چاہوں بیٹے عطا کروں ۔ جسکو چاہوں صرف بیٹیاں عطا کروں اور کسی کو دونوں بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہوں ۔ کسی کو بے اولاد ہی رکھتا ہوں ” ۔۔۔۔۔
کیا اللہ کے سوا کسی اور کو یہ اختیا اور طاقت ہے۔ بالکل نہیں ۔۔۔۔۔
کمرے میں موجود سبھی لوگ اپنی گردنیں نیچے کرتے ہوئے خاموش ہو گئے ۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔