افسانچہ ۔۔۔ سبق
رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ
نازنین جس محلے میں رہتی تھی وہاں ایک مفلوک الحال اور بہت ہی غریب بیوہ عورت بھی رہتی تھی ۔ نازنین اسکو ہر قسم کا مدد کرتی تھی ۔ نازنین جس طرح اپنے بچوں سے پیارومحبت کے ساتھ پیش آتی تھی اور انکے لئے نئے کپڑے ، کتابیں، کاپیاں اور پنسل وغیرہ بازار سے لاتی تھی اسی طرح وہ اس کے بچوں کو بھی وہ چیزیں خرید کے دیتی تھی ۔۔۔۔۔
بار بار نازنین سے چیزیں حاصل کرنے کے بعد بیوہ عورت اپنی ضرورت نازنین کو نہیں پوچھتی تھی کیونکہ ایسا کرنے میں وہ شرم محسوس کرتی تھی ۔۔۔۔
ایک دن نازنین بیوہ عورت کے گھر گئی اور ان سے سوئی مانگی تاکہ وہ اپنے پھٹے ہوئے بیگ کی سلائی کرے ۔ جب وہ سوئی لے کے واپس گھر آئی تو اسکی بیٹی بولی ۔۔۔۔ ” امی ! تم نے ان سے سوئی کیوں مانگی ۔ ہمارے گھر میں کیا سوئی نہیں ہے ؟
نازنین نے بیٹی کو واپس جواب دیا ۔۔ ” میں نے ان سے سوئی اس لئے مانگی تاکہ وہ ہم سے اپنی ضرورتیں بلاججک کے طلب کریں اور یہ نہ محسوس کریں کہ وہ تمام چیزیں ہم سے ہی مانگتی ہیں اور حاجتیں طلب کرنے میں بھی ہم سے شرم محسوس نہ کریں ۔
ماں کی باتیں سن کر بیٹی بولی ۔ آج ماں نے مجھے اچھا سبق سکھایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ ۔۔۔ قبر
اسکی موت کے بعد سبھی ہمسایہ اور رشتے دار چیخ وپکار میں مصروف تھے ۔ اسکے بیٹے اور بیٹیاں اپنے بال نوچتے اور کپڑے پھاڑ رہے تھے ۔ اسکا غسل اور کفن پہنانے کا عمل بھی مکمل کر لیا گیا تھا ۔ اب بس اسکو دفنانا باقی تھا ۔ ان کو اب یاد آیا کہ ابھی قبر نہیں کھودی گئی تھی ۔ معلوم کرنے کے بعد پتہ چلا کہ قبر کھودنے والا اس گاؤں میں کوئی تھا ہی نہیں کیونکہ جو شخص گاؤں میں قبریں کھودتا تھا وہ خود حج کرنے سعودی عرب گیا تھا ۔۔۔۔۔
نزدیک کے گاؤں میں بھی جب قبر کھودنے والے کی تلاش کی گئی تو پتہ چلا اسکی خود تین مہینے پہلے موت واقع ہوئی تھی ۔ تب سے گاؤں میں کسی شخص کی موت نہیں ہوئی تھی اسلئے کسی بھی آدمی نے قبر کھودنے کا فن سیکھا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
جب ہر لحاظ سے قبر کھودنے والے شخص کا تلاش کرنا ناممکن ثابت ہوا تو محلے کے ایک مکان میں کام کررہے دو بنگالی نوجوان سامنے آئے ۔ مکان مالک نے انکو میت کی خبر اور قبر نہ کھودنے کے بارے میں اطلاع دی تھی ۔ وہ بھی اس فن سے محروم تھے لیکن انہون نے اپنا موبائل فون اٹھا کر یوٹوب پر قبر کھودنے کا عمل سیکھا ۔ اسکے بعد انکے ساتھ دو اور نوجوانوں نے انکی مدد کی ۔ شام دیر گئے قبر کھودنے کے بعد ہی اسکو دفنایا گیا ۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے.