از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
اچانک ایک خبر سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچی جس میں روہت سردانا کے موت کی خبر سننے کو ملی. ذرائع کے مطابق روہت کی موت کرونا کے سبب ہوئی. اس موت کے بارے میں سن کر کئی سوالات ہر فکر میں تولد ہوئے کیونکہ یہ وہی روہت ہے جو ہر روز مختلف موضوعات پر بحث کرکے ملک میں رہنے والے لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیچ بوتا تھا.یہ وہی روہت ہے جو کسی بھی مسلمان کے خلاف سڈیڈیو میں اس وقت چلاتا تھا جب وہ مسلمان اپنے زخمی احساسوں کے اظہار کرنے کی کوشش کرتا تھا.ہر بات پر پاکستان جانے کا طعنہ دے کر تذلیل کرتا تھا.
یہ ملک کی امن و شانتی خراب کرنے والی اس جماعت کا رکن تھا جن کے سبب ” ہندو مسلم سکھ عیسائی” کا قومی ترانہ زمین بوس ہوا ہے.ملک کو تباہی کے کنارے کھڑا کرنے والوں کے لیے تعریفیں اس کا کام تھا اور حق بولنے والے ہندستانیوں کے بارے میں ملک دشمنی کے الفاظ ورد زبان رہتے تھے. یہ بیچارہ انسانیت کی حقیقت سے اسقدر نافہم تھا کہ یہ ظلم کی ترجمانی کرنے کے فن کو ہی شاید حقیقت سمجھتا تھا.روہت اپنے شو میں کشمیر میں ہورہے مظالم پر قہقے لگا کر مظلوموں کو دہشت گرد قرار دیتا تھا. اور یہاں کے ماووں کے درد بھرے آنسووں پر تماشائی بن کر یہ اور وہ سب جو آج "آج تک” کے سڈیڈیو میں روتے اور آنسووں بہاتے نظر آئے سب مل کر کشمیروں کے زخموں پر نمک چھیڑتے تھے.
واقعی ایک مضبوط طاقت کے ہاتھ میں کائنات کا نظام ہے جس کے سبب مظلوموں کے آنسوں اور آہیں رائیگاں نہیں ہوتے ہیں ورنہ روہت جسیے صحافت کا لباس پہننے والے انسان ظلم کے حدوں کو پار کرتے کرتے تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے.اس نام نہاد صحافی نے بڑے مباحثے منعقد کئے اس وقت جب کپکپاتے ہونٹ, آنسووں کے سمندر, درد کی پکار, اولادوں کے بچھڑنے کا ماتم, خون کی ندیاں اور ظلم کے پہاڑ وادی کشمیر کے ہر گلی میں نظر آرہے تھے.
اسلام کسی کے موت پر خوش ہونے کا سبق نہیں سکھاتا لیکن جن غم کے ماروں کو اس نام نہاد صحافی نے اپنے شبدوں سے زخم دیے ہیں وہ آج راحت محسوس کرتے ہونگے.اپنے مفاد کا پروا کرنے والے اس نام نہاد صحافی نے ہمیشہ مسلمانوں کے تئیں نفرت کا اظہار کیا اور خاصکر کشمیروں کو ہمیشہ دہشت گرد نام دے کر یہاں کے بے بسوں کے خلاف کھڑا رہا. سب جانتے ہیں کہ انسان کا علمی, قلمی یا دیگر طاقیتں فانی ہوتی ہیں اسی حقیقت کا چہرہ دیکھ کر آج روہت نامی یہ ظالموں کی بولی بولنے والا خاموش ہوگیا اب کیا پایا اس نے فقط ایک ایسی تاریخ رقم کی جس میں مظلوم کے خلاف شبد درج ہیں جس کے ہر صفحے پر مظلوموں کی بددعائیں موجود ہیں.
اس لیے شاید روہت کا موت ان صحافیوں کے لیے سبق بھی بن سکتا ہے جنہوں نے ملک کے لوگوں میں نفرت پھیلانے کا ٹھیکہ لیا ہے. جن کے سبب ہندو مسلمان کا فتنہ عروج پر پہنچا. جو سستی شہرت اور چند پیسوں کے خاطر قوم کے شریف انسانوں کے جان و عزت کا سودا کرتے ہیں.روہت کے دیگر ساتھیوں کو اپنے اندر احساس زندہ کرنا چاہیے کہ کئی کل تاریخ میں وہ بھی ظالم لفظ سے نا یاد کیا جائے کیونکہ تحقیقی نگاہ سے جب دیکھتے ہیں تو ملک کے زوال کا مرکز ان صحافیوں کے دفتر ہی ہیں جہاں سے نفرت کی آواز گھر گھر پہنچتی ہیں. لوگ ان بے غیرت صحافیوں کے ان ناتواں حرکتوں سے اب خبردار ہیں اس لیے ایسے صحافیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ روہت جیسی چلانے والی آواز بھی سور بن کر رہ گئی اگر کچھ رہنے والا ہے تو فقط انسانیت کی خدمت. اللہ تمام لوگوں کو ایسے انسانوں کی شر سے محفوظ رکھے.آمین