عذراء زمرود
کجر کلگام
قرآن مجید جو تمام انسانوں کو حقیقی راستے کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے نازل کیا گیا اس کے نزول کے لیے اللہ تعالی رمضان لمبارک کے مہینہ کو منتخب کیا گیا اور رمضان میں سب سے بہترین اور عظیم رات شب قدر کا انتخاب فرمایا۔قرآن مجید ایک بے عظیم اور بے مثال کتاب ہے ، اس کی عظمتوں اور رفعتوں کی کوئی انتہا نہیں ،ہدایت اور اصلاح ،انقلاب اور تبدیلی، ظاہر و باطن کی درستگی اور دنیا و اخرت کی تما م تر بھلائیوں اور کامیابوں کو اللہ تعالی نے اس میں جمع کر رکھا ہے ،علوم ومعارف ،اسرار وحکم کی تمام باتیں بیان کی گئی۔
رمضان المبارک جو انسانوں کی اصلاح وتربیت اور ان کی عملی زندگی کو درست کرنے کا مہینہ ہے ،جو ایمان والوں کو تقوی کے زیور سے آراستہ کرتا ہے اور بندوں کے تعلق کو خالق سے جوڑتا ہے،راہِ ہدایت کی طرف انسانوں کو گامزن کرتا ہے اس عظیم مہینے کو اللہ تعالیٰ نے جس عظیم کتاب یعنی قرآن مجید کے نزول کیلئے منتخب فرمایا اس کتاب کی عظمت میں اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں ۔۔۔۔
لَوۡ اَنۡزَلۡنَا هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيۡتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡيَةِ اللّٰهِؕ وَتِلۡكَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر )غور کریں۔
"قرآن کی عـظمت اور انسان کی غفلت”
اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس طرح خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کر رہا ہے، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب ہوتا اور اسے معلوم ہوجاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا۔ لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بےحسی اور بےفکری جو قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے حقیقت حال جان چکا ہے اور پھر بھی اس پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے، نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں ان کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا۔ بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بےجان و بےشعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہے ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ہم پہ بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ جیسا رسول بھیجا اور قرآن کریم جیسی کتاب نازل کی۔ جس کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام کی عظمت وہی ہوتی ہے جو متکلم کی ہوتی ہے۔ جب اس احساس اور علم کے ساتھ اسے کسی پہاڑ پر نازل کیا جاتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو پہاڑ جیسی سخت اور بےحس چیز بھی خشیت الٰہی سے عاجز یا سر جھکائے ہوئے اور پاش پاش ہوجاتی۔ کیونکہ مخلوقات کی کمزوری یہ ہے کہ وہ کسی بھی کلام کو اس کے متکلم کے حوالے سے محسوس کرتے اور سمجھتے ہیں۔ ایک معمولی آدمی جب کوئی سی بات بھی کرتا ہے تو اس کے معمولی ہونے کی وجہ سے کوئی اسے قدروقیمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ لیکن وہی بات اگر کسی صاحب جبروت اور صاحب منصب کی زبان سے نکلے تو سننے والے اس کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ اور طبیعتیں اس کے لیے نہ صرف ہموار ہوتیں بلکہ دبی چلی جاتی ہیں۔ بےجان مخلوقات کو بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس بخشا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ہر چیز اس کی تسبیح کرتی ہے۔ اس احساس کے تحت اگر قرآن کریم کو پہاڑ پر نازل کیا جاتا اور اسے احساس ہوتا کہ یہ خداوندِذوالجلال کا کلام ہے جس نے مجھے بلندی اور سختی عطا کی ہے، لیکن اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ ایک آن میں مجھے اٹھا کر پھینک دے۔ تو متکلم کی حیثیت کے ادراک کی وجہ سے پہاڑ پست ہوجاتا اور پھٹ جاتا، دبتا چلا جاتا اور پاش پاش ہوجاتا۔ لیکن انسانوں کو اپنی غفلت و جحود کی وجہ سے چونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا استحضار نہیں ہوتا اس لیے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب بھی ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے تو وہ اس سے متأثر نہیں ہوتے۔یعنی اگر پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ وہ سمجھ، اختیار اور عقل و شعور عطا کردیتا، جو انسان کو عطا کی گئی ہے پھر انہیں یہ بتایا جاتا کہ تمہیں اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنا ہوگا اور پھر تمہارے اعمال کی تم سے باز پرس بھی ہوگی تو وہ بھی اس تصور سے کانپ اٹھتے لیکن انسان کی بےحسی کا یہ عالم ہے کہ اس بار امانت کو اٹھا لینے کے بعد بھی اس پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ ہی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگر اس نے اپنی زندگی غفلت اور خدا فراموشی میں گزار دی تو آخرت میں اپنے پروردگار کے سامنے کیا جواب دے گا اور اس کی گرفت سے کیسے بچ سکے گا۔ بلکہ وہ قرآن سن کر اور تمام حقائق پر مطلع ہونے کے بعد بھی ایسے غیر متاثر رہتا ہے جیسے کوئی بےجان اور بےشعور پتھر ہو۔ جسے ان بےجان چیزوں کے علاوہ کوئی انسانی قوتیں دی ہی نہیں گئیں۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ۔۔۔۔۔۔(سورہ البقرہ: 185)
ترجمہ:
رمضان وہ مہینہ ہے ، جس میں قرآن نازل کیا گیا
اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے رمضان کی فضیلت اور اہمیت کو براہِ راست بیان کرنے کی بجائے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جس سے رمضان المبارک کی فضیلت اور اہمیت بھی دل و دماغ میں اُترتی چلی جاتی ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہو جاتی ہے کہ رمضان کی اس اہمیت اور فضیلت کا حقیقی سبب کیا ہے۔دراصل قرآن کریم صرف فضیلت کی کتاب نہیں بلکہ اس کی بعض خصوصیات ہیں جس کا ربط بھی واضح ہوتا ہے اور انسانوں کے لئے اسکی ضرورت بھی نمایاں ہوتی ہے۔اصل میں قرآن کریم کے نازل کرنے سے ہمارا مقصود یہ تھا کہ اس سے تمام اہل عالم کو ان کے انجام سے خبردار کیا جائے اور ان کی گمراہی اور برے اعمال کی سزا سے انہیں ڈرایا جائے۔
کیونکہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ ۔۔۔۔۔(سورہ الدخان: 03)
ترجمہ:
کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے
یعنی جس رات قرآن نازل ہوا وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی۔ کیونکہ اس رات کو تمام دنیا کی ہدایت کا اہتمام کیا جارہا تھا۔ اس مقام پر اس رات کو (لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ) کہا گیا۔
اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس رات کی واضح فضیلت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔۔
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ ۞سورہ القدر : 1
ترجمہ:
ہم نے اِس (قرآن )کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔
اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس رات کو پورا قرآن مجید لوح محفوظ سے حاملین ِوحی فرشتوں کے سپرد کردیا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ٢٣ سال کے دوران میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ ﷺ پر نازل کرتے رہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اس رات سے ہوئی ۔
یعنی ہم نے اس کلام کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ قدر کا معنی تقدیر اور قسمت بھی ہے اور عزت و منزلت بھی۔ یہاں دونوں معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو اس رات میں اتارا ہے جو قدر و منزلت کے اعتبار سے بےمثل رات ہے ‘ یا اس رات میں اتارا ہے جو تقدیر ساز ہے۔ اس کتاب کی عظمت اور جلالتِ قدر کا عالم یہ ہے کہ ہم نے اسے ایک خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے اور یہ خیروبرکت والی رات یہی لیلۃ القدر ہے اور جس کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ اس رات کی عبادت کی فضیلت اور اس رات میں ہونے والے فیصلوں کی اثراندازی کی کیفیت یہ ہے کہ جو کام ہزار مہینے میں طے پاتا ہے اور اپنے بےپناہ اثرات رکھتا ہے اس رات میں ہونے والا کام ہزار مہینے سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ کونسی رات ہے ؟ اس کے متعلق اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رض بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ١ ” لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو “۔ رواہ البخاری۔
شب قدر اور بابرکت رات ،دونوں سے ایک ہی رات مراد ہے۔یعنی قدر کی رات ، جو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔جس کی وضاحت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کردہ حدیث سے ہوئی ہے اسی شب قدر میں قرآن مجید کا آغاز ہوا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ شب قدر آخری عشرے کی دس راتوں میں سے جو پانچ طاق راتیں ہیں 21٫23٫25٫27٫29.ان میں سے کوئی ایک طاق رات ،شب قدر ہوتی ہے۔اس کو متعین طور پر اس لئے نہیں بتلایا گیا،تاکہ لوگ زیادہ راتوں کو قیام کر سکیں اگر متعین کر دیا جاتا تو لوگ صرف اسی رات کو قیام کرتے ۔ ویسے تو بعض علماء کا خیال یہ رہا ہے کہ یہ متعین طور پر 27 ویں شب ہے، لیکن یہ صحیح نہیں احادیث سے اس کے تعین کی تاثیر نہیں ہوتی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے کہا،ایے اللہ کے رسول، یہ بتلائیے اگر مجھے علم ہو جائے کہ کون سی رات قدر کی رات ہے، تو میں اس میں کیا پڑھو؟ آپ نے فرمایا،تم یہ دعا پڑھو.
”اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي”
ترجمہ۔اے اللہ بے شک تو بہت معاف کرنے والا ،معاف کرنے کو پسند فرمایا ہے ،پس تو مجھے معاف فرما دے۔”( ترمذی، حسن صحیح)
اس حدیثِ مبارکہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ لیلہ القدر کی کوئی واضح علامت تو احادیث میں بیان نہیں کی گئی ہے، تاہم سلف نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں یہ بتلایا ہے کہ اس رات بکثرت فرشتوں کے نزول کی وجہ سے ایک خاص قسم کی طمانیت وسکینت محسوس ہوتی ہے۔دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے۔یہ رات زیادہ ٹھنڈی یا زیادہ گرم نہیں ، بلکہ معتدل ہوتی ہے اسکی صبح کو طلوع ہونے والا سورج زیادہ تیز نہیں ہوتا،وغیرہ ۔واللہ واعلم
اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے۔(بخاری و مسلم)
یعنی رمضان المبارک کے آخری عشرے اس کے پہلے بیس دنوں کے مقابلے میں اطاعت و فرمانبرداری و عبادت الہٰی کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔اخری عشرے میں راتوں کو زیادہ سے زیادہ بیدار رہ کر عبادت اور دعا و مناجات میں وقت گزارنا چاہیے تاکہ شب قدر کی فضیلت حاصل کی جاسکے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِ ۙ خَيۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَهۡرٍؕ ۞(سورہ القدر: 2)
ترجمہ:
شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔
یعنی اس رات کا عمل خیر ہزار مہینوں کے عمل خیر سے افضل ہے جن میں شب قدر شمار نہ ہو۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات کے عمل کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ چناچہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ” جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کے لیے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔
اس رات کی افضلیت کے ضمن میں ایک رائے یہ ہے کہ اس ایک رات میں اتنی خیر تقسیم کی جاتی ہے جتنی ایک ہزار مہینہ میں بھی تقسیم نہیں کی جاتی۔ اس رات کی افضلیت کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کی اصلاح اور فلاح کے لیے جو کام نزولِ قرآن اس ایک رات میں ہوا ‘ خیر اور بھلائی کا اتنا بڑا کام کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں بھی نہ ہوا تھا۔
لیلۃُ القدر میں مغفرت سے محروم رہنے والے افراد:
رحمتوں اور برکتوں کی اس باغ وبہار میں کچھ ایسے بد نصیب اور نا اہل و خاسر لوگ بھی ہوتے ہیں ؛ جو اپنے گناہوں کی پاداش میں شبِ قدرجیسی عظیم اور بابرکت رات کی فضیلتوں کے حصول سے اور بالخصوص مغفرتِ خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں، وہ کون لوگ ہیں ؟ حدیث میں اُن کی نشاندہی کی گئی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد مَروی ہے :
شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے زمین پر اُترتے ہیں اور ساری رات عبادت میں مشغول لوگوں سے سلام و مصافحہ کرکے اُن کی دعاؤں پر آمین کہتے ہوئے رات گزار کر صبح جب واپسی کا وقت ہوتا ہے تو حضرت جبریل سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امّتِ محمدیہ کے مومنوں کے ساتھ اُن کی ضروریات کے پورا کرنے کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا؟ حضرت جبریل فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے اِس شبِ قدر میں ایمان والوں پر نظرِ رحمت فرمائی اور چار اَفراد کے علاوہ سب کے ساتھ درگزر اور مغفرت کا معاملہ فرمادیا‘‘۔یہ سُن کر حضرات صحابہ کرام نے سوال کیا کہ وہ کون افراد ہوں گے ؟تو آپﷺنے اِرشاد فرمایا:شراب کا عادی ، والدین کا نافرمان ،رشتہ قطع کرنے والااور کینہ پَروَر ۔(شعب الایمان : 3421)۔